کچھ سال قبل 26 جنوری کے موقع پر میں نے ایک اسکول کی تقریب میں بطور مہمان شرکت کی تھی۔ وہ ایک پرائیویٹ اسکول تھا جس میں ہائی اسکول تک کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس طرح کی تقریب دراصل موقع ہوتا ہے ان عظیم ہستیوں کو سلام کرنے کا جنھوں نے اپنی زندگی کی قربانی دے کر آزاد ہندوستان کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا۔ ہندوستان کے ایسے سپوتوں کو یاد کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنے ملک کے لیے ہنستے ہنستے پھانسی کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا تھا اور آخری سانس تک ’انقلاب زندہ باد... انقلاب زندہ باد‘کا نعرہ بلند کرتے رہے تھے۔ میں جس اسکول کی تقریب میں شامل ہوا وہ ہندی میڈیم اسکول تھا اس لیے نظامت کرنے والا شخص ہندی میں ہی اپنی بات کہہ رہا تھا لیکن جب بھی بات تحریک آزادی اور جوش جگانے کی آتی تھی تو یہی ’انقلاب زندہ باد‘ والا اُردو لفظ اچانک ہی اس کے منھ سے نکل پڑتے تھے۔ نہ صرف یہ لفظ بلکہ اور بھی بہت سارے الفاظ جیسے ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ اور ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ والا مشہور شعر بار بار ماحول کو قومی جذبات سے شرابور کر رہا تھا۔ میں بچوں اور موجود لوگوں کے چہروں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کے اندر کا لہو گرم ہو کر چہروں سے جھانک رہا ہے۔ اُس وقت میں تحریک آزادی میں اردو کے کرشمائی کردار کو یاد کرنے لگا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو شاعروں اور مصنّفین نے اس تحریک کو تیز کرنے میں اپنا بھرپور تعاون دیا ہے۔ ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ آپ زور سے لگا کر دیکھیے، آج بھی ایک عجیب سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارا خون جوش مارنے لگتا ہے اور اسے بھیڑ میں بولا جائے تو اس کا اثر مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگر کسی بات کو زور دے کر منوانا ہوتا ہے تو خود بہ خود زبان سے یہ نعرہ نکلنے لگتا ہے۔ یہ صرف ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک جذبہ بھی ہے جو ہمیں ماضی کی حقیقتوں سے بھی روشناس کراتا ہے۔ اُردو زبان کی اس اہمیت کو بھی منظر عام پر لاتا ہے جس نے ہندوستان کی آزادی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دو لفظوں کا یہ نعرہ جس کو اردو نے جنم دیا، نہ جانے کتنے دلوں میں نیا جوش بھرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اسی ایک نعرے کی پکار پر آزادی کے بے شمار متوالوں نے اپنے سروں کو قربان کر دیا اور اگر یہ کہا جائے کہ آزادی اس نعرے کی احسان مند ہے، تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نعرہ آزادی کابگل اور منتر ثابت ہوا۔ اسی طرح بسمل عظیم آبادی کے شعر
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کو لے لیجیے۔ حالانکہ یہ شعر رام پرساد بسمل کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ شعر کس نے لکھا، ہے تو اُردو ہی زبان۔ آپ اس منظر کا تصور کیجیے جب پھانسی کا پھندا گلے میں، سولی پر جھولنے کی تیاری اور بھگت سنگھ کی زبان پر یہ شعر تیر رہا تھا جس نے انگریزوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آزادی کے ان سرپھروں کے روم روم میں آزاد ہندوستان کا جو خواب بس گیا ہے اس کو بندوق کی گولیوں اور پھانسی کے پھندوں سے روکا نہیں جا سکتا۔
اگر ہم غور کریں تو پائیں گے کہ تحریک آزادی کے وقت ہندوستانیوں کو ایک دھاگے میں باندھنے کا کارنامہ جن زبانوں نے کیا ان میں اُردو سرفہرست ہے۔ یہ وہی میٹھی اور دلکش زبان تھی جس کی تحریروں، تقریروں اور شاعری نے ہندوستانیوں کے دلوں کو چھونے، آزادی کے حقیقی معنی سمجھانے اور انگریزوں کے مظالم سے مطلع کرانے کے ساتھ ان کی نئی نئی سازشوں کا پردہ فاش کرنے کا کام کیا اور آزادی کی راہیں ہموار کی۔
وطن کی فکر کر ناداں، قیامت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
---
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
تحریک آزادی کے وقت مذہبی اتحاد، بھائی چارہ، آزادی اور وطن پرستی کی ایسی جھنکار اردو شاعری میں سنائی پڑتی ہے جس نے انقلاب کی شمع ہندوستانیوں کے دلوں میں جلا دی۔ اردو ادب نے لوگوں کو وہ سلیقہ دیا جس سے سوئے ہوئے اور مایوس لوگوں میں امید کی شمع روشن ہو گئی۔ اقبال کے ذریعہ حب الوطنی سے لبریز اور انگریز مخالف جذبات سے پُر شاعری پڑھ کر بھی لوگوں میں ایک جنون پیدا ہوا۔ انھوں نے غلامی پر جھنجھوڑ دینے والی اور خون کے آنسو رلانے والی نظمیں لکھیں۔ جب گاندھی جی نے تحریک عدم تعاون چلایا تو حسرت موہانی اور مجاز لکھنوی جیسے وطن پرستوں کی شاعری نے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کا کام کیا۔ یہ وہ دور تھا جب اُردو شاعری میں انقلاب کی آگ نظر آ رہی تھی۔ مجاز لکھنو کے ان اشعار کو ہی دیکھ لیجیے
جلال آتش برق شہاب پیدا کر
ازل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو خود انقلاب پیدا کر
ایسے وقت میں اشفاق اللہ خان کی شاعری نے بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی اور ان میں نیا جوش پیدا کیا۔ 1857 کے انقلاب نے انگریزوں کے خلاف جس حیرت انگیز ماحول کو پیدا کیا تھا اسے اردو شاعری نے انگریز دشمنی میں بدل دیا۔ غالب اور میر نے بھی غلام ہندوستان کا نقشہ اپنی اُردو شاعری میں پیش کیا اور کچھ ایسے اشعار کہے جس نے لوگوں پر گہرا اثر ڈالا۔ دلّی کی بدحالی اور پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئےمیر تقی میر نے لکھا
دلّی میں آج بھیک بھی نہیں ملتی انھیں
تھا کل تک دماغ جنھیں تخت و تاج کا
---
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
میر کا درد کچھ اس طرح کا ہے جس میں ماضی کی سنہری یادوں کے ساتھ غلام ہندوستان کا رنج بھی ظاہر ہوا ہے۔
پریم چند، سعادت حسن منٹو، علی عباس حسینی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی وغیرہ ایسے نام ہیں جنھوں نے اُردو میں اپنی لازوال تحریروں سے ملک کی آزادی کا پرچم بلند کیا۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ انگریزوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چند کے پہلے افسانوی مجموعہ ’سوزِ وطن‘ (1905) کو انگریزوں نے ضبط کر کے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ کئی دوسرے مصنّفین اور صحافیوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ منٹو کی کہانیوں ’تماشہ‘، ’نیا قانون‘ وغیرہ میں بھی انگریزوں کے تشدد اور عام آدمی کی تکلیف کو دکھایا گیا جس نے لوگوں میں بیداری پیدا کی۔ اُردو زبان میں ہونے والے اس طرح کے کام سے انگریزوں کی پریشانیاں بڑھ رہی تھیں تو دوسری طرف آزادی کے متوالوں میں جوش بھر رہا تھا۔ تحریک آزادی زور پکڑرہی تھی۔ بڑی تعداد میں لیڈروںصحافیوں، مصنّفین اور لیڈروں کو گرفتار بھی کیا جا رہا تھا۔ لیکن چاروں طرف سے ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے گونجنے لگے اور ’سرفروشی کی تمنا‘ کی آواز ہر دل سے نکلنے لگی تھی۔ اس وقت اخبار و رسائل نے بھی اپنی ذمہ داری نبھائی اورلوگوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کیا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کی تقریروں نے تحریک آزادی میں جو کردار ادا کیااسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ گاندھی جی نے بھی تحریک آزادی کے وقت جس ’ہندوستانی‘ زبان کی وکالت کی وہ اُردو کے ہی زیادہ نزدیک دکھائی پڑتی ہے۔
جہاں تک اُردو اور ہندی زبان کی بات ہے تو میں اس تنازعہ میں نہیں پڑنا چاہتا کہ ’ہندوستانی‘ ہندی کے نزدیک ہے یا اردو کے، لیکن یہ قابل غور امر ہے کہ برج، اودھی، بھوجپوری وغیرہ کے مقابلے میں اُردو اس کھڑی بولی ہندی کے زیادہ نزدیک ہے جس نے آزادی کی تحریک میں اہم کردار نبھایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بول چال کی شکل میں ہندی اور اردو الگ نہیں لگتے۔ اس بول چال کی زبان کو فارسی اسکرپٹ میں لکھا گیا تو اُردو کہلائی اور جب دیوناگری اسکرپٹ میں لکھا گیا تو ہندی کہا گیا۔ یہاں افسوسناک امر تو یہ ہے کہ اُردو اور ہندی کی اس لڑائی میں اس زبان کو فراموش کیا جا رہا ہے جس نے آزادی کی لڑائی میں ہمہ وقت ہمارا ساتھ دیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined