کسی کے بھی والد اگر اپنی اولاد پر غصہ ہوا کرتے تھے تو اولاد کے دفاع میں اگر کوئی کُھل کے کھڑا ہوتا تھا اور اپنی بات منوا بھی لیتے تھے وہ دادا یا دادی ہوتے تھے۔ یہ دادا-دادی صرف اپنے پوتے، پوتیوں کو والدین کے غصہ سے ہی نہیں بچاتے تھے بلکہ ان کی ہر فرمائشیں بھی پوری کیا کرتے تھے اور رات کو کہانی بھی سناتے تھے۔ انتہائی خوبصورت رشتہ تھا دادی-پوتی یا پوتے کا، نئی نسل اور کچھ طبقوں کے لوگوں کے بچوں نے ابھی تک اس رشتہ کے مزے لئے ہیں، لیکن نہ جانے کیوں اس رشتہ کے خوبصورت احساسات ختم ہوتے جا رہے ہیں اور اب ان رشتوں کی باتیں صرف یاد کے طور پر ہوتی ہیں۔
Published: 29 Apr 2020, 4:11 PM IST
روزی روٹی اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں پہلے گاؤں یا آبائی وطن چھوٹا، پھر یہ خوبصورت رشتے پھیکے پڑنے لگے۔ شہروں کے چھوٹے مکانوں میں پہلے والدین کے لئے جگہ ختم ہوئی، پھر ہلکے ہلکے دلوں سے بھی جگہ ختم ہونی شروع ہو گئی، پھر یہ رشتے کچھ تقریبات تک محدود ہو کر رہ گئے۔ شہری زندگی کے تقاضے صرف ان خوبصورت رشتوں کے احساس کو ختم کرنے تک ہی نہیں محدود رہے بلکہ دھیرے دھیرے انسان کے ہر رشتہ پر اثر انداز ہونے لگے۔ دادا-دادی کے لئے تو گھروں میں اور ان کی اولادوں کی زندگی میں پہلے ہی جگہ تنگ ہو گئی تھی، لیکن اب والدین کے پاس بھی اپنی اولادوں کے لئے وقت نہیں رہا۔ یہ تقاضے اتنی تیزی سے رشتوں کو ڈستے چلے گئے کہ میاں-بیوی کے پاس ایک دوسرے کے لئے کوئی وقت ہی نہیں بچا۔
Published: 29 Apr 2020, 4:11 PM IST
ان تبدیلیوں کی وجہ سے بچوں کے لئے کریچ کلچر نے جنم لیا، دفتروں میں بچوں کے لئے انتظام کیے جانے لگے کیونکہ اگر بیوی نہ کمائے تو کار اور گھر کی قیمت ادا نہیں ہوگی۔ اس کے بعد بڑے گھرانوں میں بچے پیدا کرنے کا چلن ہی ختم ہو گیا اور گھر میں اس کی جگہ ایک کتے نے لے لی، جس کے خیال میں ہی بچا ہوا وقت گزر جاتا ہے۔ بڑے شہروں میں بہت تیزی کے ساتھ شادی کی جگہ لیو ان رلیشن شپ نے لے لی ہے۔ اب ایک نیا کلچر شروع ہوا ہے، وہ ہے کرائے پر کوکھ لینے کا، جس میں مرد اور عورت اپنا اسپرمس کسی دیگرعورت کی کوکھ میں انجیکٹ کروا کر اپنے لئے بچہ پیدا کروا لیتے ہیں اور کرائے کی کوکھ دینے والی عورت کو کچھ رقم دے دی جاتی ہے۔ بات یہیں نہیں رکی اب اپنی مرضی کا بچہ یعنی برینڈڈ بچہ کی بات ہونے لگی ہے۔ جس میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ بچہ کا رنگ کیسا ہو، آنکھیں کیسی ہوں، بال کیسے ہوں، کس مذہب اور ذات کا ہو ویسے ہی اسپرمس خریدنے کی بات ہوتی ہے۔ مغرب میں چلن شروع ہو گیا ہے اور اب یہاں آنے میں دیر نہیں لگے گی۔
Published: 29 Apr 2020, 4:11 PM IST
یعنی ان تبدیلیوں میں پہلے دادا، دادی کہیں غائب ہوئے، اب پھوپھی، چچا اور خالہ جیسے رشتہ ختم ہونے جا رہے ہیں، کورونا وبا کی وجہ سے جس طرح کی زندگی لاک ڈاؤن میں گزارنے پر آج کا انسان مجبور ہے، اس نے ان رشتوں کے ختم ہونے کی رفتار کو اور تیز کر دیا ہے۔ آگے چل کر انسان صرف اپنی ذات تک محدود ہونے جا رہا ہے، اس کے چاروں طرف یا تو مشینیں ہوں گی یا مصنوعی چیزیں ہوں گی۔ کورونا وائرس کے اثرات صرف طبی اور اقتصادی نہیں ہوں گے بلکہ سماجی بھی ہوں گے اور ایک نئی تہذیب کو جنم دیں گے۔
Published: 29 Apr 2020, 4:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Apr 2020, 4:11 PM IST