میرے ذہن میں1978کی کچھ یادیں آج بھی ایسی تازہ ہیں جیسے کل ہی کی بات ہو۔ان کچھ یادوں میں سے ایک یاد وہ ہے جب میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ٹیلیفون پر بات کی تھی۔ ایک دن پہلے یہ طے ہوا کہ میں کل اپنے ایک دوست کے گھر سے دوسرے دوست سے فون پر بات کرونگا، بس جناب یہ طے ہونا تھا کہ میرے اوپر گھبراہٹ طاری ہو گئی، طرح طرح کے خدشات، طرح طرح کے سوالات ذہن میں آنے لگے۔ خیر اگلے دن فون پر بات ہو گئی اور بات کرنے کے بعد ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔ اس خوشی کااحساس کچھ ایسا تھا کہ مہینوں تک میں اس تجربے سے محظوظ ہوتا رہا۔ آج2017میں جب اپنے چاروں طرف کے سماج اور اس میں ہوئی ترقی کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو تمام چیزوں کا عادی ہونے کے با وجود تھوڑا حیران تو ہوتا ہوں۔ آج دو سال کا بچہ موبائل اور لیپ ٹاپ کو کھول لیتا ہے اور ان میں اس جگہ تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی پسند کی تصویر، گیم یا ویڈیو پڑا ہو اہے۔ اس کی وجہ صاف ہے، اس بچے کو یہ سب آنکھ کھولتے ہی مل گیا اور اس کا استعمال اس نے والدین کی گود میں کھیلتے کھیلتے سیکھ لیا۔ یہ تو ایک مثال ہے لیکن اب پورا سماج بہت تیزی سے بدل رہا ہے اور بدلنا ضروری بھی ہے کیونکہ یہ بدلاؤ ترقی کی نشانی ہے۔ اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ اس ترقی کو سماج کی اچھائی کے لئے کس طرح زیادہ سے زیادہ استعمال کر سکتے ہیں اور منفی اثرات کو کیسے کم کر سکتے ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اور عام طور پر ایک پہلو مثبت ہوتا ہے اور دوسرے میں کچھ منفی پہلو شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے ترقی کے ساتھ بھی یہ دونوں پہلو جڑے ہوئے ہیں۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی منکر نہیں ہو سکتا لیکن اس کے بھی کچھ منفی پہلو ہیں۔ ای میل، وہاٹس ایپ، ٹیلیگرام، فیس بک، انسٹا گرام ، یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا کے ذرائع اور ان سب ذرائع کے استعمال سے کوئی بھی شخص یا ادارہ اپنی بات کو جلدی ، آسان اور موثر طریقے سے دوسرے کے پاس پہنچا سکتا ہے ۔ ان ذرائع کے جہاں زبردست فائدے ہیں وہیں اگر کوئی ان کا استعمال کسی غلط مقصد کے لئے کرے تو وہ بھی انتہائی خطرناک ہیں۔
آج سوشل میڈیا پر پیغامات کا ایک سیلاب آیا ہوا ہےاس میں سیاسی ، سماجی ، مذہبی الغرض ہر نوعیت کے پیغامات ایک دوسرے کو موصول ہوتے ہیں جن میں سے لوگ کچھ کو دیکھتے ہیں ۔ کچھ کو پڑھتے ہیں اور ان میں سے کچھ کو آگے فارورڈکرنا اپنی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک تصور کرتے ہیں۔ کچھ پیغامات بغیر دیکھے اور پڑھے آگے فارورڈ کر دیتے ہیں ۔ یہ الگ پہلو ہے کہ اس میں کچھ عریاں تصاویر، ویڈیو وغیرہ خوب سرکیولیٹ ہوتے ہیں اور سماج میں ان سب چیزوں پر سے پردہ اٹھ رہا ہے جن کو حقیقت میں پردہ کی ضرورت تھی۔ اس کے دو پہلو انتہائی خطرناک شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ایک تو سماج میں ایک دوسرے سے ملنے کے لئے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ اس کی شکل اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ کھانے کی میز پر ایک ساتھ بیٹھے ہونے کے با وجود میز پر بیٹھا ہر فرد اپنی سوشل میڈیا کی دنیا میں مست ہوتا ہے اور اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کس کے ساتھ بیٹھا ہے اور کس مقصد کے لئے بیٹھا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر ہم نے اس ذرائع کا صحیح اور دانشمندی سے استعمال نہیں کیا تو پورے سماج کا تانا بانا بکھر سکتا ہے۔ دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم ان ذرائع کا استعمال کرتے وقت یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ ہماری کہی ہو ئی بات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ ہماری زبان انتہائی خراب ہو جاتی ہے اور اکثر ہماری پوسٹ یا گفتگو سے لوگوں کی دل آزاری ہو جاتی ہے اور یہ دل آزاری دشمنی کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا انتہائی دانشمندی سے استعمال کریں اور کوشش کریں کہ اس کا استعمال ضرورت کے لئے ہی ہو اور زیادہ سے زیادہ وقت اپنے سماجی حلقے میں گزاریں۔ہم نے اگر ایسا نہیں کیا تو ہماری سماجی زندگی تو متاثر ہوگی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سماج کے کئی اہم ستون گر جائیں گے اور ترقی کے منفی اثرات مثبت پہلوؤ ں پر حاوی ہو جائیں گے۔
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز