حالیہ تاریخ میں دنیا بھر میں کسی سال کے ختم ہونے کا اتنی بے چینی اور شدت سے انتظار نہیں کیا گیا ہوگا، جتنا کہ 2020 کا کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح حالیہ تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس کے اتنے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں جیسا کہ حالیہ کورونا وائرس کے اثرات، دنیا اور اس کی بیشتر ملکوں پر پڑے ہیں۔ سال 2020 کافی صبرآزما رہا، جس نے کئی طرح سے لوگوں کی طرز زندگی میں تبدیلیاں لائیں اور ہر شعبہ ہائے حیات اس سے متاثر ہوا۔ مجموعی طور پر سال 2020 کو نئی طرز زندگی کا پیش خیمہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
Published: undefined
2020 ء نے ہمیں سکھایا ہے کہ کس طرح ایک دوسرے سے محفوظ فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے بھی ہم اپنی روز مرہ کی زندگی اور مصروفیات کو بآسانی انجام دے سکتے ہیں۔ اس میں گھر سے کام کرنا، گھر پر پڑھنا لکھنا اور یہاں تک کہ گھر پر ہی سماجی پروگراموں کا اہتمام کرنا، زندگی کا ایک لازمی جز بن گئے اور ان سب کے لئے انٹرنیٹ کا استعمال کرنا ایک لازمی ضرورت بن کر سامنے آیا۔ اس وبا نے ہمیں شادیوں اور دیگر خاندانی تقاریب میں مہمانوں کی تعداد کو محدود کرنے پر مجبور کیا۔ اس کے نتیجہ میں اس حقیقت سے آشنا ہوئے کہ ان سرگرمیوں کے لئے ہم غیرضروری طور پر کتنا کچھ خرچ کر رہے ہیں۔ اس کے بجائے ہم اس رقم کا استعمال غریب اور ضرورت مندوں پر آسانی سے کرسکتے ہیں۔
Published: undefined
یہ بات ہندوستانی مسلمانوں پر زیادہ لازم ہوتی ہے کہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے منحرف ہوتے ہوئے ہم صرف دنیاوی دکھاوے پر اپنی شادی بیاہ اور غیر اسلامی رسموں پر کتنی فضول خرچی کر رہے ہیں۔ اس کے بجائے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اس پیسے کا استعمال قوم کی تعلیم یا غریب بچیوں کی شادی یا بیواؤں کی فلاح و بہبود کے لیے کریں؟ ضرورت صرف محسوس کرنے اور عمل کرنے کی ہے۔ کورونا نے ہمیں سکھا دیا ہے کہ غیر ضروری اشیاء اور رسموں پر خرچ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
Published: undefined
لاک ڈاون نے تجارتی اداروں کو کام کا نیا طرز اور نئی تکنیکیں اختیار کرنے کے لئے مجبور کیا جس میں سماجی فاصلہ اور دیگر قواعد کی پابندی کی گئی۔ گھر سے کام اب ایک نیا اصول بن گیا ہے اور کمپنیوں کو اس حقیقت سے واقفیت ہوئی ہے کہ انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال ملازمین کی حمل و نقل، اجلاسوں و کانفرنسوں اور نمائشوں پر خرچ کرنے کے بجائے نتائج کو حاصل کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کی مدد سے منفرد طریقے بھی اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ملازمین کی ذہنی و جسمانی صحت بھی بہتر ہوئی کیوں کہ انہیں اب روزانہ سفرنہیں کرنا پڑ رہا تھا اور وہ ثمر آور سرگرمیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت مختص کر پارہے تھے۔
Published: undefined
ایک سکہ کے دو رخ کی طرح کورونا بھی غیرمعمولی چوکسی اور خوف اپنے ساتھ لایا۔ فوری طور پر دنیا بھر میں اس سے نمٹنے کے لئے جوابی اقدامات شروع کیے گئے۔ اس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہمیں فطرت کے ساتھ لڑنا نہیں ہے۔ اگرچہ کورونا کی تباہیوں کی خبریں ابھی جاری ہیں اور اس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں لاک ڈاون بھی ہو رہا ہے۔ تاہم قدرتی تبدیلیوں سے متعلق چند مثبت واقعات بھی سامنے آرہے ہیں جو یقینی طور پر ہمارے چہروں پر مسکراہٹ لانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ خلاف قیاس محسوس ہوگا، لیکن اسے مختصر طور پر ایسے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ کورونا ہماری روئے زمین اور خود ہمارے لئے بھی ایک بروقت بہتری کا پیغام لایا ہے۔ ہندوستان میں کانپور اور وارانسی میں گنگا کی صفائی کی اطلاعات آرہی تھیں جو کہ دو ایسے شہر ہیں جہاں گنگا انتہائی آلودہ پانی کی شکل میں بہہ رہی تھی۔ دہلی میں بھی جمنا کا پانی صاف اور شفاف ہوا ہے۔ پنجاب میں پہاڑیوں کے نزدیک رہنے والے شہریوں کو اب ہمالیہ کے پہاڑی سلسلہ اپنے گھروں کی چھتوں سے صاف نظر آتے ہیں اور ان پہاڑی شہروں میں اب پرندوں اور چڑیوں کا چہچہانا روز مرہ کی بات ہوگئی ہے جس نے وہاں کے مکینوں کو ایک نئی مسرت سے آشنا کیا ہے۔
Published: undefined
2020 میں عام ہندوستانی کو مزدوروں اور کم و متوسط آمدنی والے خاندانوں کی دشواریوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے، جنہوں نے بڑے شہروں سے خاص طور سے دہلی سے راہ فرار اختیار کی۔ یہ مجبوری میں کی گئی نقل مکانی ایک ایسے اعلان کا نتیجہ تھی جس نے پورے ملک کو ایک غیرمتوقع لاک ڈاون میں جھونک دیا۔ یہ عمل کسی پیشگی تیاری یا منصوبہ بندی کے بغیر کیا گیا تھا۔ عام ہندوستانی نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ یہ فیصلہ ہندوستانیوں کو وائرس کے خطرہ سے محفوظ رکھنے کے لئے لیا گیا تھا۔
Published: undefined
تاہم عام ہندوستانی شہری آزادی کے بعد سے اب تک اس حق کا دعویدار ہے کہ ہم عام ہندوستانی ایک عام مزدور، ایک عام کسان، عام کلرک اور ایک عام و ایماندار ٹیکس دہندہ کے طور پر ملک کی ترقی میں تعاون کرتے ہیں اور راحت سرگرمیوں کو انجام دینے میں حکومت کی مدد کرتے ہیں چاہے جنگ ہو یا آفت سماوی سے نمٹنا۔
Published: undefined
لیکن اس کے برعکس یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت عام ہندوستانی شہریوں کے معاملہ میں بار بار ناکام ہوتی رہی۔ عام شہری حیران ہیں کہ اس کی سخت محنت کی کمائی جو ٹیکس کے طور پر ادا کی جاتی ہے کہاں جارہی ہے؟ کئی دہوں سے عام ہندوستانی شہری حکومت کی ایک اپیل پر اپنی رقم کا عطیہ دیتے آرہے ہیں جو انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی یا تعلیم یا اپنے عقائد کے سفر وغیرہ کے لئے جمع کر رکھی تھی۔ مختلف سیاست دانوں کی جانب سے وائرس کے نام پر فنڈس قائم کیے گئے لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کسی عوامی شخصیت نے اپنی بچت یا ماہانہ آمدنی سے کوئی رقم ایسے کام کے لئے دی ہے۔ اگرچہ وہ اس عہدہ سے ہنوز فائدہ حاصل کر رہے ہیں جس کے لئے عوام نے ان کا انتخاب کیا ہے۔ عہدہ سے سبکدوشی کے بعد بھی انہیں وظائف اور دیگر سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
Published: undefined
2020 ء کے دوران جو واقعات سامنے آئے ہیں انہوں نے عام ہندوستانی کو خود سے یہ سوال کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا یہ وہی حقیقی ہندوستان ہے جو ہمارے آباء و اجداد تعمیر کرنا چاہتے تھے یا نہیں؟ اگر نہیں تو عام ہندوستانی شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سیاسی آقاوں سے کچھ ناپسندیدہ سوالات کریں تاکہ وہ ملک کو صحیح راستہ اور سمت کی جانب دوبارہ گامزن کرسکیں۔
Published: undefined
2020ء کے دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان واقعات پر مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی قائدین کا ردعمل قوم کے لئے بہتر تھا یا نہیں، لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم مسلمانوں پر بہ حیثیت ہندوستانی شہری ایک مثالی مسلمان بننے کی کوشش کرنے کے علاوہ اور بھی دیگر ذمہ داریاں ہیں۔
Published: undefined
ایک مثالی مسلمان کے لئے مسلم علماء کا رول اہم ہے۔ غیرتعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے مذہبی قائدین کی پوری دل جمعی کے ساتھ اندھی تقلید کرتے ہیں تاہم انہیں اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ انھیں اپنی اور اپنے مذہب کی مثبت شبیہ کو پیش کرنا ہے اور اسلام کی بنیادی تعلیمات پر سب سے پہلے عمل کرنا ہے۔ جیسا کہ اسلام میں سکھایا گیا کہ انہیں اپنے لئے اور اپنے افرادِ خانہ کے لئے تعلیم کے حصول کی کوشش کرنا چاہیے۔ اپنی بستیوں کو صاف رکھنا چاہیے اور ان طریقوں پر عمل کرنا چاہیے جس سے خود کی اور دوسروں کی حفاظت یقینی ہو۔
Published: undefined
آج ہندوستانی مسلمانوں کو سب سے زیادہ مختلف مسالک میں اتحاد کی ضرورت ہے اور ہمارے مذہبی قائدین کی جانب سے سرگرم عمل ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے انہیں ایک جامع اور دور رس حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ ہر مسئلہ پر پیشگی رہنمائی فراہم کرنا ہوگی کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ہنوز ان کی باتوں پر عمل کرتا ہے نہ کہ سماجی قائدین کی۔
Published: undefined
ہمارے مذہبی قائدین کی یہ ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں میں اتحاد قائم کریں اور ساتھ ہی سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی زندگی میں امت مسلمہ کی رہنمائی کریں۔ اس کے لئے انہیں ایک پیشگی مثبت حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں خود اصلاح کی ضرورت بھی ہے اور ملک میں تیزی سے بدل رہی صورتحال میں باوقار طور پر بھائی چارہ کو فروغ دینے کے لئے نئی راہیں تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
Published: undefined
امید کرتے ہیں کہ 2021ء میں اس وبا کے بعد اللہ ہماری پریشانیوں کو کم کرے گا اور ہمارے سیاست دان اور حکمران حکومت کرنے اور چلانے کے لیے مزید نئے جمہوری طریقے تلاش کریں گے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاسکے۔
(مضمون نگار سینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز