سماجی

بھارت رتن بھیم راؤ امبیڈکر: دانشورانہ روایت کی عبقری شخصیت (یومِ پیدائش پر خصوصی پیشکش)

بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کو دانشورانہ روایت اور فکروفلسفہ کے وسیع تناظرات میں دیکھا جانا چاہیے، دراصل سماجی انصاف کی تحریک میں وہ صرف ایک امید ہی نہیں بلکہ مجموعی اعتبار سے ہندوستان کی آواز تھے۔

ڈاکٹر امبیڈکر
ڈاکٹر امبیڈکر 

بھارت رتن ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر(1956-1891) کا شمار ہندوستان کے ممتاز ترین قومی معماروں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک سرکردہ رہنما کے ساتھ وطن پرست دانشور بھی تھے اور دلتوں کے مسیحا بھی۔ وہ اپنے ملک کی عظیم خوبیوں کو عالم گیر سطح پر روشن کرنے والے ایک ایسے آفتاب تھے جن کے بغیر ہندوستان کا ذکر ادھورا ہے۔ 14 اپریل کوہر سال ان کا یوم پیدائش تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ان کی گراں قدر قومی خدمات کا پورا ہندوستان اعتراف کرتا رہا ہے۔ کوئی بھی شہری خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یانظریے سے ہو وہ بابا صاحب امبیڈکر کا نام عزت واحترام سے لیتا ہے اور ملک کے تئیں ان کی خدمات کو سلام کرتا ہے۔ ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ ان کو بطور سماجی و قومی مصلح تسلیم کرتا ہے۔ یہ طبقہ ان کو فقط دلتوں تک محدود کرنے کے بجاۓ عالمی سطح کے فکروفلسفہ کے ماہرین میں شمار کرنے کا قائل رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ امبیڈکر کو صرف دلت رہنما کے دائرے میں قید کر کے رکھنا کسی بھی طور ان کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ وہ ہندوستان کے آئیکن (Icon) تھے۔ انہوں نے جس طرح اپنی پوری زندگی دلت حقوق کی دستیابی اور حصولیابی کی جدوجہد میں صرف کر دی اس کی دوسری کوئی نظیر دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اسی بنیاد پر پوری دنیا میں وہ دلتوں کے مسیحا کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ تاہم امبیڈکر نے نہ صرف دلتوں کے مسائل اور حقوق کی بات کی بلکہ ہندوستان کے آئین میں پسماندہ اور اقلیتی طبقہ کے حقوق کی بھی نشاندہی کی۔

Published: undefined

وہ ایک ممتاز قانون داں کے ساتھ ماہر اقتصادیات بھی تھے۔ ہندوستان کے جملہ مسائل پر ان کی گہری نظر تھی اس لیے جب انہیں ہندوستان کی آئین ساز کمیٹی کی سربراہی سونپی گئی تو پوری ایمانداری اور دلسوزی سے کام کیا۔ نتیجہ کے طور پر ایک لازوال دستورہند بن کر تیار ہوا۔ انہیں ہندوستانی آئین کا بانی قرار دیا گیا۔

Published: undefined

بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈر کو دانشورانہ روایت اور فکروفلسفہ کے وسیع تناظرات میں دیکھا جانا چاہیے۔ یعنی انہیں عالمی فلاسفی کے بڑے دائرے میں رکھا جانا چاہیے۔ دراصل سماجی انصاف کی تحریک میں وہ صرف ایک امید ہی نہیں بلکہ مجموعی اعتبار سے ہندوستان کی آواز تھے۔ وہ کسی ایک زمرے کا ہی رہنما نہیں تھے بلکہ انہوں نے ہمیشہ عالمی سطح کے عظیم اذہان کے ساتھ سفر کیا اور کام بھی۔ محنت کش عوام کی ہمیشہ سرپرستی فرمائی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ایک قابل تحسین قیادت پیش کی۔ انہوں نے آزاد ہندوستان کی اولین جواہر لال نہرو حکومت میں وزیر قانون کی حیثیت سے متعدد اہم کارنامے انجام دیئے۔ مزدوروں کے آٹھ گھنٹے دن میں کام مقرر کرنے سے لے کر مساوی اجرت اور زچکی کی تعطیل وغیرہ جیسے کئی مطالبات کو رکھا اور اس میں وہ فتح یاب بھی ہوۓ۔ انہوں نے خواتین کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی اور آزادی اظہار پر اصرار کیا۔ انہوں نے ایک آئین ساز کے طور پر ہندوستان کو نیا ویژن دیا۔ شہریت، مساوات، انصاف، حقوق، آزادی، ریزرویشن جیسے اہم سیاسی تصورات کی فہم وادراک کے لیے جو اپنے تصورات پیش کیے اسے خوب سراہا گیا۔ ان کے یہ تصورات وتفکرات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

Published: undefined

طالب علمی کے زمانے میں انہیں ذات پات اور اونچ نیچ کےتعلق سے تلخ و ترش تجربات سے گزرنا پڑا۔ ہم درجہ ساتھیوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ اس کا ان کی زندگی پر کافی اثر پڑا۔ بعد میں قانون کی تربیت حاصل کی۔ پھر وہ درس وتدریس سے وابستہ ہوۓ۔ بعد ازیں سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انہوں نے کئی رسائل وجرائد کی اشاعت کی بنیاد رکھی، جن میں موک نائک (Mook Nayak)،جنتا (Janta) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کی کئی کتابیں آج بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ اکتوبر 1956میں اچھوت پن کے سبب انہوں نے ہندو مذہب چھوڑکر ناگپور میں اپنے لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ بدھ مت میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی زندگی کا یہ ایک اہم پڑاؤ تھا۔

Published: undefined

امبیڈکر نے دلتوں کو اچھوت کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی اور برہمنی ذات پات کے نظام پر سوالات قائم کیے۔ ہندوستان کے اس قومی ہیرو اور سیاسی فلسفی نے قوم سازی اور آئین سازی کی دنیا میں بڑا نام کمایا۔ انہوں نے ہمیشہ معاشرے میں ذات پات کی سطح پر جابرانہ و ظالمانہ حقائق کو درست کرنے کی سمت میں کام کیا۔ اچھوت کے بنیادی سوالات کو جس طرح بابا صاحب نے اٹھایا اس سے قبل ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ذات پات کی بنیاد پر پیدا شدہ سماجی برائیوں کی تشخیص میں کلیدی کردار نبھایا اور دلت سماج کو سماجی امتیاز، معاشی ناانصافی اور سیاست سے اخراج جیسے مختلف پہلوؤں کے تعلق سے عدل کی بات اپنی آخری سانس تک کی۔ وہ چاہتے تھے کہ دلت طبقہ جدید شہری کا حصہ بنے۔ نیز انہوں نے صنعتی ترقی، جمہوری اداروں اور جمہوری اقدار پر مشتمل ایک ایسے اعلی سماجی ڈھانچہ کی تشکیل کا خواب دیکھا جس سے ایک بہتر ہندوستان کی تصویر سامنے آ سکے۔

Published: undefined

دراصل ان کی شخصیت دانشورانہ روایت کی ایک ایسی عبقری شخصیت تھی جس پر ہم جتنا بھی ناز کریں وہ کم ہے۔ انہوں نے برہمنی سماجی دنیا اور نئے سیکولرسیاسی ڈھانچے کے درمیان فرق کو واضح بھی کیا۔ انہوں نے دو مختلف نظریات کی حکمرانی کے بنیادی امتیاز کو بھی سمجھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اول سیاسی آئیڈیل ہے جس کے تحت آزادی، مساوات اور بھائی چارہ کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ دوئم سماجی آئیڈیل ہے جو مذہبی سظح پر اس کی تردید کرتا ہے۔ ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ اگر ہندو سماج میں ذات پات اور اونچ نیچ کے فرق کو ختم نہین کیا گیا اور بنیادی اصلاحات پر توجہ نہیں دی گئی تو نئی سیکولر دنیا کے لیے انقلاب کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔ نیز جمہوریت میں اہم پیش رفت ممکن نہیں ہو سکے گی۔ اس لیے انسانیت پسندانہ مقاصد کے حصول کے لیے ذات پات کی سطح پر اصلاحات ضروری ہیں جنہیں جدید آئین نے احتیاط سے ترتیب دیا ہے۔ دراصل ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ ذات پات کے نظام کو انسانی سماجی نظام میں تبدیل کیا جانا بہت ضرور ہے۔ تاکہ ہر فرد کے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔

Published: undefined

دنیا بہت ترقی یافتہ ہو چکی ہے پھر بھی دلت طبقہ کو آج بھی مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ درج فہرست ذات کے افراد کے خلاف ہونے والے جرائم میں سب سے زیادہ تعداد آج دلت خواتین کی ہے۔ جبکہ اس سے نمٹنے کے لیے آئینی ہدایات موجود ہیں۔ ایسا کیوں ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ سو کی ایک بات یہ کہ کمتر- برتر ذات کے فرق کو مٹا دیا جاۓ تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہم مجموعی اعتبار سے سماجی انصاف اور انسانی حقوق کے حصول کے لیے امبیڈکر کے بتاۓ ہوۓ راستے پر ہم چلیں گے۔ سچ بھی یہ ہے کہ دلت طبقہ آج بھی امبیڈکر کو ہی اپنے حصول مقصد کے لیے اہم ذریعہ سمجھتا ہے۔ آج ہمارا ان کو اصل خراج عقیدت یہ ہوگا کہ اس ملک سے ہر نوع کی تفریق مٹ جاۓ۔ انصاف کا بول بالا ہو اور امبیڈکر نوازی میں اضافہ دیکھنے کو ملتا رہے کیونکہ امبیڈکر کا مجسمہ فقط ایک انسان سے اب عبارت نہیں بلکہ یہ نئے ہندوستان میں نئی خوشحالی اور نئی ترقی کی علامت بھی بن چکا ہے۔

(مضمون نگار تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ، تاجکستان میں وزیٹنگ پروفیسر ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined