ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں اور ملک اس پر فخر بھی کرتا رہا ہے کہ کیرالہ میں خواندگی کی شرح صد فیصد ہے اور تعلیم کے معاملہ میں وہ ملک کے دیگر صوبوں سے آگے ہیں۔ تعلیم ہی کیوں بھائی چارے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے معاملہ میں بھی یہ ریاست ملک کی دیگر ریاستوں سے تھوڑا مختلف ہے۔ نرسنگ کے شعبے میں بھی اس ریاست نے اپنا لوہا منوایا ہے اور نرسنگ کا سیدھا تعلق خدمت خلق سے ہے۔
Published: undefined
دہلی یونیورسٹی میں داخلہ کا عمل جاری ہے اور طلباء کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا داخلہ اس یونیورسٹی میں ہو جائے۔ پورے ملک سے طلباء اس یونیورسٹی میں داخلہ کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی یہ سوال نہیں پیدا ہوا کہ کس صوبہ کے طلباء زیادہ داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں اور کس کے نہیں لیکن اس یونورسٹی کے بڑے کالج کے پروفیسر نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس کے بعد کیرالہ کے طلباء میں تو غصہ ہے ہی ساتھ میں ذی شعور طبقہ میں بھی یہ تشویش پیدا ہوگئی کہ ریاست کی بنیاد پر طلباء میں کیسے تفریق اور تقسیم کی جا سکتی ہے۔
Published: undefined
بات دراصل یہ ہے کہ کیرالہ کے طلباء کو زیادہ نمبروں کی بنیاد پر داخلہ مل گیا اور دیگر بچے جن کے مارکس یعنی نمبر کم تھے وہ داخلہ کے لئے اہل نہیں پائے گئے۔ اس پر کروڑی مل کالج کے پروفیسر، جن کی آر ایس ایس سے قربت بتائی جاتی ہے، انہوں نے ایک بیان ٹھوک دیا کہ یہ ’مارکس جہاد‘ ہے اور انہوں نے کیرلہ کے تعلیمی بورڈ پر سوال کھڑے کر دیئے کہ بورڈ سے زیادہ نمبر ملنے کی وجہ سے ان بچوں کو یہاں داخلہ مل جاتا ہے اس لئے داخلہ کے ضابطوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے ان کے اس بیان کی مخالفت ہونی تھی اور جیسے ہی طلباء تنظیموں نے اس بیان کی مخالفت کی تو بی جے پی کی طلباء تنظیم پروفیسر کے اس بیان کے حق میں کھڑی ہوگئی۔
Published: undefined
کوئی بھی شخص یا پروفیسر کچھ ضابطوں کو لے کر اپنی تشویش کا اظہار کر سکتا ہے لیکن اس کو ’مارکس جہاد‘ جیسے الفاط سے خطاب کرنا داصل یہ ایک ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس طرح کے جملوں اور مدوں سے سماج میں تقسیم اور تفریق پیدا ہوتی ہے اور اس کا سیدھا نقصان ملک کو ہوتا ہے کیونکہ اگر نئی نسل کے ذہنوں کو ہم اس طرح آلودہ کر دیں گے تو وہ تعلیم اور ترقی کے راستے سے بھٹک جائیں گے اور تفریق اور نفرت کے راستے پر چلنے لگیں گے جس کا مستقبل میں ملک کو نقصان ہوگا کیونکہ ہمارے طلباء تعلیم حاصل کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے نفرت پر زیادہ توجہ دیں گے۔
Published: undefined
ہندوستان کے ہر بڑے اسپتال میں نرسنگ اسٹاف میں اکثریت کا تعلق کیرالہ سے ہوتا ہے اور اسپتال انتظامیہ انہیں ان کی خدمت خلق کے جذبہ کی وجہ سے ترجیح بھی دیتا ہے۔ ہندوستان ہی کیا خلیجی ممالک میں بھی اس ریاست اور شعبہ کے لوگوں کا دبدبا ہے۔ تو کیا کل کو ہم کہیں گے کہ یہ ’نرسنگ جہاد‘ ہے۔ ہندوستان میں فٹبال کی جانب نوجوانوں میں رجحان بڑھ رہا ہے اور کیرالہ کے نوجوانوں میں اس کھیل کی جانب زبردست شوق دیکھا جا رہا ہے۔ وہاں کے کھلاڑی اب بہت تیزی کے ساتھ ہندوستان کے دیگر صوبوں میں اپنے لئے جگہ بنا رہے ہیں تو کیا اس کو فٹبال یا کھیل جہاد کہیں گے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے جن بچوں کو آئی اے ایس کی کوچنگ دی جاتی ہے اس میں سے ایک اچھی تعداد کامیاب ہوگئی اور اس میں کامیاب ہونے والے تمام امیدوار اقلیتی فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن جامعہ کے نام کی وجہ سے اسے ’آئی اے ایس جہاد‘ کا نام دے کر ان بچوں کی لیاقت اور یو پی ایس سی پر سوال کھڑے کر دیئے۔
Published: undefined
دراصل لو جہاد، آئی اے ایس جہاد اور مارکس جہاد جیسے جملوں سے ملک میں تفریق میں اضافہ ہوتا ہے اور کوئی بھی ملک اگر ان جملوں اور جھگڑوں میں الجھا رہا تو وہ ترقی نہیں کر سکتا، کیونکہ اس ملک کے نوجوانوں کی صلاحیتیں تقسیم ہو جاتی ہیں۔ ملک کی ترقی کے لئے جو اہم جز ہیں اس میں امن، محبت اور بھائی چارے کی بہت اہمیت ہے اور ذمہ دار اور محب وطن لوگوں کو اس طرح کے بیانات سے گریز کرنا چاہئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined