(35ویں وسط)
2011 میں ہندوستان کے جنوب مشرقی علاقہ سے متعلق ایک اہم بڑا تحقیقاتی مضمون چھپا۔ ڈینمارک کے مشہور جینیٹکس کے تحقیقاتی مرکز اور ان کے ساتھ دنیا کے 26 خاص انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں نے مل کر اس علاقہ کے پچھلے 8000 سال تک پرانے انسانی ڈھانچوں کا تجزیہ کیا۔ اس تحقیقات کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کے پچھلے 4000 ہزار سالوں میں اس علاقہ کی آبادی میں کئی بار بڑی تبدیلیاں ہوئیں اور یہ زیادہ تر چین سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے اس زمانے میں ہوئیں، جب چین میں کھیتی باڑی کا انقلاب آچکا تھا اور بڑھتی آبادی کی وجہ سے کچھ لوگ نئی جگہوں کی تلاش میں نکلے۔
Published: undefined
7500 قبل مسیح سے 3500 قبل مسیح تک چین کی یانگسی اور پیلی دریا کی وادی میں رہنے والے لوگ چاول اور باجرے کی فصل اگانا خوب اچھی طرح جان چکے تھے۔ چین سے ایشیا کے جنوب مشرقی علاقہ میں آنے والے لوگ زیادہ تر دو راستوں سے آئے۔ پہلا زمینی راستہ جس کے ساتھ اسٹرو اشیاٹک زبانیں اس علاقہ میں پھیلیں۔ دوسرا راستہ کچھ لوگ ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے تک چھوٹی چھوٹی ناؤ کے ذریعہ اس علاقے میں پھیلے اور اس طرح ملیشیا، انڈونیشیا اور فلیپائن میں اپنی کھیتی کرنے کا ہنر، رسم و رواج اور زبانیں لے کر پہنچے۔
Published: undefined
ہندوستان میں 2000 قبل مسیح سے پہلے اسٹرو اشیاٹک لوگوں کی عدم موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کے یہ لوگ جنوبی مشرقی ایشیا سے ہندوستان آئے، یہ وہی وقت تھا جب ہڑپا تہذیب کا زوال ہو رہا تھا۔ 2011 میں چھپی جینیٹکس کی اہم دریافت یہ ہے کہ ہندوستان میں منڈا زبان بولنے والے لوگوں کے وائی کروسوم (جو اگلی نسل کو اپنے والد سے ملتا ہے) میں تقریباً 25 فیصدی حصّہ جنوب مشرقی ایشیا کے لوگوں سے ملتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کے 2000 قبل مسیح کے بعد یہ لوگ ہندوستان اپنی زبانیں، رسم رواج اور کھیتی کا ہنرلائے اور یہاں پہلے سے بسے لوگوں میں گھل مل گئے۔ اب اس سوال کا جواب معلوم کریں کہ کیا یہ باہر سے آنے والے لوگوں نے ہندوستان میں چاول کی کھیتی شروع کی۔ اس کا جواب بھی سائنسی تحقیقات سے ملا۔
Published: undefined
ایشیا میں چاول کی دو خاص قسمیں ہیں جن کے نام انڈیکا اور جیپونیکا ہیں اور ان سے نکلی ہوئی کچھ اور مقامی شاخیں بھی ہیں۔ کھدائی میں حاصل ہوئے بیجوں کی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کے اتر پردیش کے سنت کبیر نگرمیں 7000 قبل مسیح کے آس پاس چاول کی کھیتی شروع ہو چکی تھی۔ ماہرین کا یہ ماننا ہے جنگلی چاول کو پالتو بنانے کے تجربہ مختلف جگہوں پر کامیاب ہو رہے تھے۔ تو ہمارے سوال کا ایک ادھورا جواب یہ ہے کے ہندوستان میں چاول باہر سے نہیں آیا۔ چاول کی ہماری قسم انڈیکا ہے، لیکن چاول کی کہانی کا ایک اہم رخ اور ہے۔
Published: undefined
چین کی ینگتسی ندی کے آس پاس چاول کی جو کامیاب کھیتی ہوئی وہ جینیٹکس کے حساب سے فرق ہونے کی وجہ سے جیپونیکا کہلاتی ہے۔ تحقیقات یہ بتاتی ہے کے جب لوگ جنوب مشرقی ایشیا سے ہندوستان آے تو اپنے ساتھ چاول یعنی جیپونیکا اور اس کی کھیتی کا ہنر اپنے ساتھ لائے۔ جب ہندوستانی چاول انڈیکا اور چینی چاول جیپونیکا کا آاپس میں میل (hybridization) ہوا تو چاول کی فصل کی پیداوار بہت بڑھی۔
Published: undefined
چاول کی فصل کی کہانی کا سب سے اہم سبق یہ ہے کے انسان نے ہمیشہ ایک دوسرے کے تجربوں سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی ہے۔ ہر تہذیب کو اپنے الگ نیوٹن کے قانون کھوجنے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے بھی باہر کے لوگوں کو بہت کچھ دیا ہے۔ صرف چاول ہی نہیں بلکہ آسام میں باہر سے آنے والے لوگ اپنے ساتھ کئی رس والے پھل اور آم اپنے ساتھ لانے۔
Published: undefined
ان تحقیقات کا نتیجہ یہ ہے کہ 2000 قبل مسیح کے آس پاس ہندوستان کی رنگا رنگ انسانی آبادی میں ایک اور رنگ شمال مشرق اور جنوب مشرق سے آنے والے لوگ لائے اور وہ مقامی لوگوں میں گھل مل گئے۔ انسانی آبادی کی تاریخ کا پہیہ دھیمے دھیمے آگے بڑھتا رہا۔ اب تک کی کہانی کے حساب سے ہم کون ہیں: افریقہ سے آنے والے لوگ پھر ایران کے زرگوس علاقہ سے آنے والے اور اس کے بعد شمال اور جنوب سے آنے والے لوگ۔ یہ سب لوگ اپنے ساتھ طرح طرح کے رسم ورواج اور کہانیاں لے کر آئے جنہون ے ہماری موجودہ تہذیب کو بنایا اور سنوارا۔ اس کہانی کا ایک اہم پہلو ابھی باقی ہے۔ یہ سوال کے جینیٹکس کی سائنسی معلومات ہم کو آرینس کے بارے میں کیا یہ بتاتی کے وہ کون تھے اور کیا وہ باہر سے ہندوستان ؤئے۔ اس کا جواب اگلی چند قسطوں میں ملاحظہ فرمائیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined