اس بات کا ذکر کچھ پہلے کی قسطوں میں ہوچکا ہے کہ پرانے انسانی ڈھانچوں کے جینس کی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ ہڑپا کی تہذیب مغربی علاقہ کے لوگوں میں جیسے ایران کے زغروس علاقہ کے لوگوں کی کافی ملاوٹ ہے، جو موجودہ ہندوستان کے تمام لوگوں میں اب بھی پائی جاتی ہے، پہلے گروپ سے حاصل ہوئے ڈی این اے کا ثبوت ایران کے زغروس علاقہ سے ہے جو 8000-7000 قبل مسیح پرانا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اور لوگوں کے برخلاف ان لوگوں میں مغربی ایشیا اور یورپ کے علاقوں کے جینس ہیں اور ان میں ترکی کے آس پاس کے علاقہ کے جینس کی ملاوٹ نہیں ہے۔
Published: undefined
دوسرے گروپ کا ڈی این اے وادی سندھ کے مغربی علاقہ کے تین ڈھانچوں کا ہے، جن میں 14 سے 42 فیصدی افریقہ سے آنے والے پہلے ہندوستانیوں کا ہے اور باقی حصہ ایران کے لوگوں کے جینس کا ہے اور ان میں بھی ترکی کے لوگوں کی جینس کی ملاوٹ نہیں ہے۔
Published: undefined
ان تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ شائد ہڑپا کے آس پاس کے علاقہ میں ایران کی طرف سے آئے ہوئے ان لوگوں کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور یہ در اصل ہڑپا کے لوگوں کے جینس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جن میں زغروس کے پہاڑی علاقوں اور پہلے ہندوستانی جینس کی ملاوٹ ہے۔ اور یہ ملاوٹ 3000-5000 قبل مسیح کے دوران ہوئی۔ غور طلب یہ ہے کہ ان نتیجوں پر پہنچنے کے لئے کھدائی سے معلوم ہوئی اطلاع کا کوئی دخل نہیں ہے، جس کا ذکر نیچے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کھدائی سے حاصل ہوئی معلومات کا بھی یہی نتیجہ ہے۔
Published: undefined
اس بات کا ذکر بھی پہلے ہوچکا ہے کہ ایران کے زغروس علاقہ اور پاکستان کے بلوچستان کے مہر گڑھ کی بستیوں میں بہت مشابہت ہے۔ پتلی اینٹوں سے بنے چوکور گھر، کھانا پکانے کے گول چولہے، جن میں گرم گول پتھر کا استعمال ہوتا تھا، اس کے علاقہ مختلف طرح کے سلسلہ وار طریقے سے بنے برتن وغیرہ، دونوں جگہوں پر ایک جیسی ہیں۔
Published: undefined
مختصراً ڈی این اے اور کھدائی دونوں کی تحقیقات سے ایک ہی بات ثابت ہوئی ہے کہ ہڑپا کے لوگوں میں ایران کے زغروس کے لوگوں کی ملاوٹ ہے۔ دونوں جگہوں کے اہم رشتہ کا تیسرا ثبوت بولی اور لکھی جانے والی زبان سے ہے۔
Published: undefined
مغربی ایشیا کے لوگ کون سی زبان استعمال کرتے تھے اس سوال کا صحیح جواب ہم صرف اس وقت سے ہی دے سکتے ہیں جب سے (3500 قبل مسیح) زبان کی لکھائی شروع ہوئی۔ میسوپوٹامیا کی زیادہ تر زبانیں تصویروں کی شکل (کیونیفارم) میں لکھی جاتی رہیں اور پھر یہ طریقہ تین ہزار سال بعد ختم ہوا جب الفاظ ایجاد ہوئے۔
Published: undefined
مغربی ایشیا کی پرانی زبانیں جو کیونیفارم طریقہ کار سی لکھی جاتی تھیں وہ سومیرین، ایلامائٹ، ہٹسک، ہرین، یوزیریٹن، اکاڈین، ابالائٹ، ارمورائٹ، ہٹنائٹ اور ابلائٹ ہیں۔ ان سب زبانوں کی لکھائی کو ماہرین پڑھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں، لیکن اب ان کا کہیں پر بھی استعمال نہیں ہوتا ہے۔ یہ ساری زبانیں مغربی ایشیا میں مختلف وقتوں میں مختلف حکومتوں کے وقت رائج ہوئیں اور پھر ختم ہوگئیں۔
Published: undefined
پرانے ڈی این اے سے حاصل ہوئی معلومات سے یہ پتہ چلا کہ زغروس کے لوگوں اور پہلے آئے ہوئے ہندوستانیوں کے بیچ ملاوٹ 3000 قبل مسیح سے پہلے ہوئی، لیکن کتنا پہلے یہ نہیں معلوم ہوسکا۔ ہم کو یہ معلوم ہے کہ بلوچستان کے مہر گڑھ میں شروعات تقریباً 7000 قبل مسیح میں ہوئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زغروس کے لوگ سندھ ندی کے آس پاس کے علاقہ میں 7000 اور 3000 قبل مسیح کے دوران ہی آئے اور یہاں گھل مل گئے۔ یہ آنے والے لوگ اپنے ساتھ آخر کون سی زبان لائے۔
Published: undefined
سب سے زیادہ امکان ہے کہ زغروس سے آنے والے لوگ اپنے ساتھ الامائٹ زبان لائے، لیکن ایران اور گلف کے علاقہ میں پہلی بڑی حکومت 2700 قبل مسیح میں بنی ،لیکن ہم کو یہ معلوم ہے کہ ایران سے آنے والے اس تاریخ سے بہت پہلے آئے۔ یعنی وہ اس وقت آئے جب کھیتی کی شروعات تھی اور بڑے شہر نہیں بنے تھے، بہت لوگ تب بھی خانہ بدوش تھے اس لئے وہ اپنے ساتھ الامائٹ کا شروعاتی نسخہ لائے ہوں گے۔ آنے والے ان لوگوں میں سے کچھ گاؤں میں رک گئے اور کھیتی کے کام میں لگ گئے، لیکن کچھ لوگ اب تک جانوروں کے ریوڑ کو مختلف چراگاہوں میں گھومتے پھرتے ہیں، مثلا بلوچستان کے براہی جو بوراہی بولتے ہیں جو کافی حد تک الامائٹ سے ملتی جلتی زبان ہے۔ ان باتوں کے بعد سب سے بہت قیاس یہ ہے کہ 7000 قبل مسیح کے آس پاس ہی ایران سے یہ لوگ اپنے ساتھ الامائٹ کا پرانہ نسخہ لائے، جو اس علاقہ کی زبان نہیں اور اس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہیں۔
Published: undefined
میک الپائن اور فرنکلین ساتھورڈ نے اپنے تحقیقاتی مضمون میں دراوڑ زبان کو اکھٹا کرکے تجزیہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کے دراوڑ زبان کا یہ پرانہ نسخہ یہی ہے، جس ست ساری دراوڑ زبانیں جیسے تامل، ملیالم، کنڑ، تیلگو اس کے علاوہ کونڈی یا اور بھی کئی زبانیں ہیں۔ دراوڑ زبان کا یہ نسخہ اس انسانی آبادی کی زبان بنی جو جانوروں کے ریوڑ، بھیڑ، بکری وغیرہ کو پالتا تھا اور کھیتی کے بارے میں بہت معمولی جانکاری تھی۔ ان جانور کے لئے اور چراگاہوں کے لئے وہی الفاظ استعمال ہوئے جو ایران کے زغروس کے لوگ استعمال کرتے تھے۔
وادی سندھ کی زبان کے بارے میں کچھ اور باتیں اگلی قسط میں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز