ایشیا کی چراگاہوں (Steppe) سے تقریباً 2000 قبل مسیح سے ایک ہزار سال تک اچھی زرخیز جگہوں کی تلاش میں لوگ جنوبی ایشیا لگاتار آتے رہے۔ ایسا بلکل بھی نہیں کے وہ لوگ فوج لے کر آئے ہوں اور انہوں نے ہندوستان کو فتح کیا ہو اور ہڑپہ کی تہذیب کو ختم کیا ہو۔ ہڑپہ کی کھدایوں میں کسی طرح کی لڑائیوں کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ ان نتیجوں پر پہنچنے کے سلسلہ میں 2018 میں ایک بہت تفصیلی تحقیقاتی مضمون چھپا، جس کا سب سے اہم کام پورے مرکزی اور جنوبی ایشیا کے پرانے انسانی ڈھانچوں کے ڈی این آئے تحقیقات سے ان کے رشتوں کو معلوم کرنا تھا۔ تو آخر اس سے کیا نئی دریافت حاصل ہوئی۔
Published: undefined
سب سے پہلی دریافت تو یہ کہ کزاخستان سے جنوبی ایشیا اور خاص کر ترکمنستان، ازبکستان اور تاجکستان کی طرف لوگ سب سے پہلے 2100 قبل مسیح کے اس پاس گئے اور اس کے بعد تقریباً 1000 سال تک یہ لوگ جنوبی ایشیا آتے رہے۔ اس ہجرت میں یہ لوگ شمالی افغانستان، ازبکستان، تاجکستان اور جنوبی ایشیا آئے۔ اپنے اس سفر میں وہ BMAC تہذیب (جو 2300 سے 1700 قبل مسیح تک رہی Oxus ندی کے کنارے بسی تھی) پر اپنا اثر چھوڑا، لیکن انہوں نے ہندوستان پہنچ کر ہڑپہ کی ختم ہوتی تہذیب کے لوگوں میں گھل مل کر ایک نئی تہذیب کو جنم دیا، جو اب ہندوستان کی دو بڑی دھاروں میں سے ایک ہے۔ دوسری اہم دھارا وہ ہے جو ہڑپہ کے لوگوں کی جنوبی ہندوستان کی طرف ہجرت کے بعد وہاں پہلے سے بسے افریقہ سے آئے ہوئے ہندوستانیوں میں گھل مل کر پروان چڑھی اور انہوں نے دراوڑ زبانوں اور ایک انفرادی کلچر کو جنم دیا۔ آنے والے آرین اور ہڑپہ کے لوگوں نے مل کر انڈو یوروپین زبانوں اور ایک نئی تہذیب کو بنایا۔
Published: undefined
تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کے 2100 قبل مسیح سے پہلے BMAC کے لوگوں میں Steppe کے ڈی این آئے کی ملاوٹ بلکل بھی نہیں ہے پر اس کے بعد 1700 قبل مسیح تک نہ صرف BMAC میں بلکہ اس کے چاروں طرف لوگوں میں Steppe کے ڈی این آئے موجود ہیں۔ اس دریافت کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کے موجودہ ایران کے شہر سوختہ میں تین ایسے ڈھانچنے ملے جو 3100 سے 2200 قبل مسیح کے ہیں اور ان کا تعلق ہڑپہ کے علاقہ سے ہے یعنی یہ لوگ ہڑپہ سے ایران گئے اور وہاں ختم ہوئے۔
Published: undefined
یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہڑپہ کے لوگوں کا ایران کے زخروز علاقہ کی آبادیوں سے گہرا تجارتی اور کلچرل تعلق تھا۔ ان تینوں ڈھانچوں میں 14-42 فیصدی جینز افریقہ سے آئے ہوئے پہلے ہندوستانیوں کے اور باقی ایرانی زخروز علاقے کے لوگوں کے ہیں، ان میں ایشیا کے Steppe کے لوگوں کے جینزکی کوئی ملاوٹ نہیں ہے۔ اس دریافت سے بھی یہی ثابت ہوا کے steppe سے آنے والے آرین 2100 قبل مسیح کے بعد ہی ہندوستان آئے۔
Published: undefined
لیکن اس سلسلے کی فیصلہ کن معلومات پاکستان کے سوات وادی کی انسانی ڈھانچوں کی ڈی این آئے تحقیقات کے نتیجے ہیں۔ یہ ڈھانچے 1200 قبل مسیح کے ہیں۔ ان کے ڈی این اے ان پرانے تین ہندوستانیوں جیسے ہیں (جو ایران میں پائے گئے ) لیکن ایک بہت اہم فرق یہ ہے کہ یہ ان سے ایک ہزار سال بعد کے ہیں اور ان میں steppe سے آئے ہوئے آرین کے 22 فیصدی جینز کی ملاوٹ ہے۔ یعنی اس ایک ہزار سال میں آنے والے آرین مقامی آبادی میں گھل مل چکے تھے۔ اس تحقیقاتی مقالہ میں اس کا بھی ذکر ہے کے موجودہ ہندوستان میں انڈو یوروپین بولنے والے خاص پجاری، سنکرت اور ویدک کلچر کے رکھوالے لوگوں میں steppe سے آئے ہوئے آرینس کے جینز کی ملاوٹ اور تمام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ Steppe کے یہ لوگ یمنایا کہلاتے تھے۔ یہی لوگ 3000 قبل مسیح کے آس پاس یوروپ کی طرف بھی گئے۔ ان کے بارے میں کچھ اور تفصیل آگے کچھ قسطوں میں ہوگی۔
Published: undefined
ان تحقیقات کی روشنی میں ہماری موجودہ ہندوستانی آبادی کچھ اس طرح کی ہے۔ پہلا گروپ افریقہ سے آئے ہوئے پہلے ہوموسیپینس اور ہڑپا کے لوگ جنمیں ایران کے زگروز کے لوگوں کے جینز کی ملاوٹ: ان سب سے ہندوستان کے دراوڑ زبانیں بولنے والے لوگ بنے۔ دوسرا بڑا گروپ ہڑپا کے لوگوں میں باہر سے آنے والے آرین کے گھل مل کر انڈو یوروپین زبانیں بولنے والے لوگ۔ اس کے علاوہ اور بھی چھوٹے گروپ جو جنوب مشرق سے آئے۔ مختصراً اصل ہندوستانی کی تلاش فضول ہے۔ یہ حقیقت نہ صرف ہمارے لیے سچ ہے بلکہ موجودہ دنیا کے ہر ملک کی آبادی کئی طرح کی رنگا و رنگ دھاراوں کی ملاوٹ ہے جیسے قوس قزح کے خوبصورت رنگ۔
اگلی قسط میں یمنایا (Ymnaya) یعنی ہندوستان آنے والے آرین کا ذکر ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined