ہر انسانی جسم میں اربوں کھربوں ایسے جاندار بھی رہتے ہیں، جو بظاہر نظر نہیں آتے۔ جلد پر بھی اور جسم کے اندر بھی۔ ان کا مجموعی وزن تقریباﹰ دو کلوگرام تک ہوتا ہے اور ماہرین انہیں 'بیکٹیریا کا چڑیا گھر‘ بھی کہتے ہیں۔
Published: undefined
صرف انسانی منہ میں ہی 600 مختلف اقسام کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ مائیکروبز صرف منہ میں ہی نہیں بلکہ خوراک کی نالی اور معدے میں بھی ہوتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
ان کی سب سے زیادہ تعداد آنتوں میں پائی جاتی ہوتی ہے۔ یہ بیکٹیریا مل کر کیسے اور کیا کام کرتے ہیں، اس بارے میں بہت تحقیق ہو چکی ہے لیکن ابھی مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ حیران کن بات تو یہ بھی ہے کہ ان 'مائیکروبیئل‘ جانداروں کی نصف سے زائد اقسام تو انسانی جسم سے باہر نشو ونما بھی نہیں پا سکتیں۔
Published: undefined
تقریباﹰ دس سال پہلے مائیکرو بیالوجی کے ماہرین نے ان جانداروں کے مطالعے کی ایک نئی اور زیادہ مؤثر تکنیک دریافت کی تھی، جسے انسانی جسم میں 'بیکٹیریا کے چڑیا گھر‘ کو سمجھنے کی کوشش کا نام دیا گیا تھا۔ انسانی جسم میں ایسے بیکٹیریا کی مختلف اقسام کا تناسب ہی یہ طے کرتا ہے کہ مثلاﹰ کسی انسان کا جسمانی وزن کتنا ہو گا۔ یہ بات بھی یہی بیکٹیریا طے کرتے ہیں کہ ہم جو خوراک کھاتے ہیں، اس سے جسم کو کتنی توانائی ملے گی۔
Published: undefined
Published: undefined
صحت بخش خوراک سے آنتوں کے یہ بیکٹیریا بھی صحت مند رہتے ہیں اور غیر صحت بخش یا فاسٹ فوڈ کھانے سے وہ کمزور پڑ جاتے ہیں، جس کا جسم کے لیے نتیجہ بہت برا نکلتا ہے۔
Published: undefined
یوں سمجھیے کہ ہمارا جسم ایک پورا شہر ہے اور آنتیں وہ مرکز، جہاں سے اہم ترین خدمات کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جیسے کسی شہر میں پولیس اہلکار جرائم کی روک تھام کرتے ہیں، ویسے ہی انسانی نظام ہضم میں یہ اربوں کھربوں بیکٹیریا ان مائیکروبز کو قابو میں رکھتے ہیں، جو ہمیں بیمار کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
انسانی جسم کو یہی بیکٹیریا وہ مادے بھی مہیا کرتے ہیں، جو صحت کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ مثلاﹰ وٹامن بی، وٹامن کے اور کئی طرح کے فَیٹی ایسڈز بھی۔
Published: undefined
آنتوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا جسمانی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا کام بھی کرتے ہیں اور خوراک کے ناقابل ہضم اجزاء سے توانائی بھی پیدا کرتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
جذباتی طور پر ہمارے لیے یہی بیکٹیریا اس لیے بھی انتہائی ضروری ہیں کہ وہ خوشی کے احساس کا سبب بننے والے ڈوپامِین اور سِیرَوٹونِن جیسے ہارمون بھی پیدا کرتے ہیں، جو دوران خون کے نظام کے ذریعے جب دماغ میں پہنچتے ہیں، تو انسان خوشی محسوس کرنے لگتا ہے۔
Published: undefined
یہ طبی سائنسی حقائق ان بہت سی وجوہات میں شامل ہیں کہ ہم میں سے ہر انسان کو اپنے اندر کے 'انتہائی ننھے منے جانداروں پر مشتمل چڑیا گھر‘ کی حفاظت کرنا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز