ہکسلے (Huxley) نے اپنے لکچر میں یہ سمجھایا کہ سمندر میں چھوٹے کیڑے مکوڑوں نے سمندر میں موجود کیلشیم کے نمک اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ایندھن کے طور پر استعمال کرکے اپنے ملائم جسموں کے باہری حصہ پر کیلشیم کاربونیٹ(چاک) کی ایک مضبوط حفاظتی کھول بنا لیتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے یہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چاک کے ٹکڑے کی کہانی (پہلی قسط)
سمندر کوئی بہت محفوظ جگہ نہیں ہے خاص طور سے چھوٹے کمزور جانوروں کے لئے کیونکہ ان کے مزیدار پروٹین کو ہڑپ کرنے کے لئے دسیوں طرح کے جانور موجود ہیں۔ اس لئے اپنی حفاظت کے لئے یہ اپنے چاروں طرف چاک کا ایک کھول بنا لیتے ہیں ۔ لیکن اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ضرورت کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی حفاظت کا سامان مہیا ہو۔ اس سوال کا جواب ڈاروِن اور ویلس کی ارتقا سے متعالق تحقیقات سے ہی مل پایا۔
ڈاروِن نے یہ ثابت کیا کہ تمام جاندار وقت اور حالات کی تبدیلیاں اپنی اگلی نسلوں کو پہچاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ان کو حالات سے مقابلہ کرکے زندہ رہنے میں مدد دیتی ہیں اور کچھ سازگار نہیں۔ صرف وہ نسلیں ہی زندہ رہ پاتی ہیں جن میں حالات سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جانداروں میں تبدیلیاں ہوتی ہیں اور یہ تبدیلیاں اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں 1950 کے آس پاس سمجھ میں آئیں جب سبھی جانداروں میں ایک بڑے مالیکیول ڈی این اے کی دریافت ہوئی۔ ڈی ای اے ایک دہرا چکردار ہلیکس بڑا مالیکیول ہے اور وہ ایک سلیٹ کی طرح کام کرتا ہے جس پر امینو تیزاب بدل کر پروٹین بنتا ہے۔ ڈی این اے میں سلسلہ وار کچھ کیمیائی ایٹم ہوتے ہیں اور انہیں میں اس نسل کے سارے راز پنہاں ہوتے ہیں۔ یہ ساری اطلاع آگے بڑھتی ہے جب یہ ڈبل ہلیکس اپنا ہم شکل مالیکیول بناتا ہے۔ جاندار کی نسلوں میں منتقل ہونے والی تبدیلیاں ہونے کی وجہ ڈی این اے مالیکیول میں موجود ایٹموں میں کسی واقعہ (ایکسیڈنٹل) کی وجہ سے کیمیائی تبدیلیاں۔
یہ بھی پڑھیں: چاک کے ٹکڑے کی کہانی، سفید رنگ سے قوانٹم مکینکس تک..قسط دوئم
ڈی این اے مالیکیول بہت بڑا مالیکیول ہے اور اس وجہ سے قوانٹم قوانین کا استعمال کرکے اس کی ساری خصوصیات معلوم کرپانا خاصا مشکل کام ہے۔ لیکن کسی بھی سائنسدان کو اس بات میں شبہ نہیں کہ اگر ایک بڑا کمپیوٹر صرف یہی کام کرے تو ہم اس کے بارے میں ساری معلومات حاصل کرسکتے ہیں ۔ ڈی این اے مالیکیول میں موجود ایٹم ایسے کیوں ہیں اس کا جواب پھر تحقیقاتی دائرے کو سمیٹ کر اسٹنڈر ماڈل کی طرف لے جاتا ہے۔چاک کی طرف ذرا پھر لوٹیں ، چاک کی خصوصیت کے بارے میں کئی منزلوں پر یہ سوال’’ کہ ایسا کیوں ہے‘‘ زایادہ سے زیادہ بنیادی وجہ تک پہنچاتا ہے۔ اب ہم چاک کیمیائی بناوٹ پر غور کریں۔
ہکسلے نے اپنے لکچر میں کہا کہ چاک زیادہ تر کیلشیم کا کمپائنڈ کیلشیم کاربونیٹ ہے اور اس میں 40 فیصد کیلشیم، 10 فی صد کاربن اور 48 فی صد آکسیجن ہے۔ پر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے اور یہی تناسب کیوں اور کئی طرح کے تناسب کیوں نہیں۔ اس سوال کا جواب 19 ویں صدی کے کیمیا داں نے ایٹم کی خصوصیات میں حاصل کیا جب کہ فزکس میں سائنسداں ایٹم کی حقیقت پر بحث مباحثہ میں مشغول تھے اور یہ مسئلہ 1905 میں آئنسٹائن کے مشہور مقولہ کے بعد ہی پورے طور سے حل ہو پایا ۔ کیمیادانوں نے یہ پتہ کرلیا کہ وزن کے لحاظ سے کیلشیم ، کاربن اور آکسیجن کا تناسب 40، 12 اور 16 ہے ۔ اس کے علاوہ سبھی معلوم چیزوں (Elements) کے وزن کے تناسب معلوم ہوچکے تھے۔
سوال یہ ہے کہ مختلف ایٹموں کا وزن جو بھی ہے وہ کیوں ایسا ہے اور ایٹموں سے مل کر جو مالیکیول بنتے ہیں ان میں ایٹموں کا خاص تناسب کیون ہوتا ہے۔ 19ویں صدی میں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کسی بھی مالیکیول میں ایٹم آپس میں برقی چارج کے تبادلہ کی وجہ سے جڑے رہتے ہیں ۔
1897 میں انگلستان کے مشہور سائنس دان جے جے تھامس نے الیکٹران کی دریافت کی اور یہ معلوم کرلیا کہ اس میں منفی برقی چارج (جو برقی جارج کی اکائی ہے) ہے اور یہی بجلی کے تاروں میں بہتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کسی بھی ایٹم کی کیمیائی خصوصیت اس میں الکٹران کی تعداد پر منحصر کرتی ہے۔ ہائڈروجن میں ایک الکٹران ، کاربن میں 6 ، آکسیجن میں 8 اور کیلشیم میں 20 الکٹران ہوتے ہیں۔
جب قوانٹم قوانین کو استعمال کرکے چاک کے ایٹموں میں موجود الکٹران کی خصوصیات معلوم کی گئیں تو یہ راز کھلا کہ کیلشیم کا ایٹم خوشی خوشی (باآسانی) 2الکٹران اور کاربن کا ایٹم 4 الکٹران دینے کو تیار ہوتا ہے اور آکسیجن کا ایک ایٹم 2 الکٹران کو اپنے پاس سمیٹنے کو تیار رہتا ہے۔ اس طرح سے آکسیجن کے تین ایٹم با آسانی 6الکٹران (2کیلشیم کے اور 4 کاربن کے) الکٹران کو اپنے پاس سمیٹ لیتا ہے۔ اس طرح کیلشیم کا ایٹم اور کاربن کے ایٹم الکٹران کو کھوکر برقی طور پر مثبت اور آکسیجن کے تینوں ایٹم برقی طور پر منفی ہوجانے کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے کو کھینچ کر جوڑے رکھتے ہیں؛ اسی کو کیمیاداں بونڈ(Bond) کہتے ہیں۔ سارے مالیکیول اسی طرح آپس میں الکٹران کو حصہ کرکے ہنستے ہیں ۔ کیونکہ ہر ایٹم میں الکٹران کی تعداد فرق ہوتی ہے اسی لئے مختلف ایٹم مختلف تناسب میں ہی مل کر ایک مستحکم مالیکیول بنانے ہیں۔ مثلاً پانی میں ہائڈروجن کے 2 ایٹم اور آکسیجن کا ایک ایٹم ہوتا ہے۔
Published: undefined
اب ذرا اس مسئلہ پر غور کریں کہ مختلف ایٹموں کا وزن جتنا ہے وہ کیوں ہے۔ اس راز پر سے پردا انگلستان کے سائنسدانوں ردرفورڈ (Ruther Ford) کی اہم تحقیقات کے بعد ہٹا۔ رُدرفورڈ نے یہ معلوم کیا کہ ایٹم کا تقریباً سارا وزن اس کے اند نیوکلیس میں ہوتا ہے۔ ایٹم کا نیوکلیس ، ایٹم کے مقانلے میں تقریباً ایک لاکھ گنا چھوتا ہوتا ہے۔
ہر ایٹم کے نیوکلیس میں دو طرح کے پارٹیکل نیو ٹران اور پروتان ہوتے ہیں۔ نیوٹران اور پروٹان دونوں کا وزن تقریباً برابر ہوتا ہے جو الکٹران کے مقابلے میں 2000 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ پروٹان میں مثبت برقی چارج ہوتا ہے جبکہ نیوٹران اور پروٹان کے بیچ جو قوت کام کرتی ہے اس کو نیو کلیر فورس کہتے ہیں جو الکٹران پر لگنے والی برقی قوت کے مقابلہ میں کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ایٹم کے نیوکلیس میں صرف نیوٹران اور پروٹان ہی ہوتے ہیں اور نیوٹران پر برقی چارج نہیں ہوتا اور پروٹان پر ایک مثبت اکائی چارج ہوتا ہے۔ پروٹان اور نیوٹران کا وزن کیوں برابر ہوتا ہے اور الکٹران ان دونوں کے مقابلہ میں کیوں بہت ہلکا ہوتا ہے۔
سائنسی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا کہ نیوٹران اور پروٹان کوارکس سے مل کر بنیں ہیں۔ سب سے ہلکے کوارکس کے نام ’اوپر‘ اور نیچے ہیں اور ان پر2/3 مثبت اور 1/3 منفی چارج ہوتا ہے۔ یہ مثبت الکٹران کے چارج کے مقابلے میں ناپی جاتی ہے۔ پروٹان میں دو اوپر کوارک اور ایک نیچے کوارک ہوتا ہے اس وجہ سے اس کا کل برقی چارج الکٹران کے برابر (ایک ) لیکن مثبت ہوتا ہے۔ جبکہ نیوٹران میں ایک اوپر کوارک اور دو نیچے کوارکس ہوتے ہیں اس وجہ سے اس کا کل چارج زیرو ہوتا ہے۔ پروٹان اور نیوٹران کا وزن برابر ہوتا ہے کیونکہ یہ وزن اس قوت کی وجہ سے ہوتا ہے جو ان تینوں کوارکس کو باندھے رکھتا ہے۔ الکٹران بہت ہلکا اس لئے ہے کہ اس پر صرف برقی قوت ہی کام کرتی ہے۔
الکٹران اور کوارکس ایسے کیوں ہیں اس کا تشفی بخش جواب کے لئے بہت سی منزلوں پر ’’ایسا کیوں ہے‘‘ معلوم کرتے ہوئے تحقیقات ہم کو پھر اسٹینڈرڈ ماڈل کی طرف لے جاتی ہے کہ یہ سارے پارٹکل کسی نہ کسی فیلڈ کے ٹکڑے(Quanta) ہیں۔اسٹینڈرڈ ماڈل جو آئنسٹائین کی رلیٹوٹی اور قوانٹم قوانین کے میل جول سی بنی ہے اس میں صرف چند فیلڈ ہی ممکن ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے چاروں طرف ہونے والے تقریباً سارے واقعات کو (Processes)سمجھ سکتے ہیں۔
چاک کے ٹکڑے کی خصوصیات کو سمجھنے کے لئے ہم نے یہ دیکھا کہ مختلف منزلیں طے کرنے کے بعد تحقیقات کی دھارائیں سمٹتی گئیں اور ہم اب ایک سب سے زیادہ خوبصورت تھیوری یعنی اسٹنڈرڈ ماڈل تک پہنچ گئیں ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined