سائنس

پیریگرین مشن: چاند پر اترنے کی کوشش ترک

نصف صدی میں امریکہ سے روانہ ہونے والے پہلے مون لینڈر کے ایندھن کے رساؤ کی وجہ سے چاند کی سطح پر کامیاب لینڈنگ کا اب کوئی امکان نہیں ہے

<div class="paragraphs"><p>پیریگرین مشن: چاند پر اترنے کی کوشش ترک</p></div>

پیریگرین مشن: چاند پر اترنے کی کوشش ترک

 

نصف صدی میں امریکہ سے روانہ ہونے والے پہلے مون لینڈر کے ایندھن کے رساؤ کی وجہ سے چاند کی سطح پر کامیاب لینڈنگ کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ پٹسبرگ میں قائم امریکی کمپنی ایسٹروبوٹک ٹیکنالوجی (Astrobotic Technology) کا کہنا ہے کہ اب ہدف یہ ہے کہ خلائی جہاز پیریگرین کو طاقت سے محروم ہونے سے پہلے جتنی دور تک ممکن ہو پہنچایا جائے۔ پیریگرین ایک باز یا شاہین ہے، جسے دنیا کا تیز ترین پرندہ کہا جاتا ہے۔ اس کا سر سیاہ ، پیٹھ نیلی سرمئی اور نچلے حصے پر دھاریاں ہوتی ہیں۔

Published: undefined

پیریگرین کا مقصد چاند پر سافٹ لینڈنگ کرنے والی پہلی تجارتی خلائی تحقیقات بننا تھالیکن 8 جنوری کو اڑان کے چند گھنٹوں بعد ہی اس کا پروپلشن سسٹم بے ضابطگی کا شکار ہوگیا۔ لینڈر نے پروپیلنٹ کا اخراج شروع کر دیا۔ پیریگرین کی پہلی سیلفی نے مشن ٹیم کو اس کے پروپلشن سسٹم میں مسائل کا پتہ لگانے میں مدد کی۔ ایسٹروبوٹک کا خیال ہے کہ یہ رساو ایک پھنسے ہوئے والو کی وجہ سے ہوا ، جس کی وجہ سے آکسیڈائزر ٹینک پھٹ گیا۔ خلائی جہاز اپنی بیٹریوں کو چارج کرنے کے لیے سورج کی طرف اپنا رخ نہیں کر سکا۔

Published: undefined

آسٹرو بوٹک نے ایک کامیاب تدبیر سے خلائی جہاز کا رخ سورج کی طرف کردیا، لیکن کچھ وقفہ بعد کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ اس کے تھرسٹرز ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ 40 گھنٹے تک کام کر سکتے ہیں۔اس وقت مقصد یہ ہے کہ پیریگرین کو چاند کی دوری کے اتنا قریب پہنچانا ہے جتنا ہم کر سکتے ہیں ، اس سے پہلے کہ وہ سورج کی طرف پوزیشن کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کھو دے ۔ پیریگرین کو 23 فروری کو چاند پر اترنا تھا، بدقسمتی سے، چاند پر سافٹ لینڈنگ کا کوئی امکان نہیں۔ اب مشن پیریگرین سے ڈیٹا اکٹھا کرنا ہے جو مستقبل کے قمری لینڈنگ کے سفر کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ 23 فروری کی کامیاب کوشش تاریخی ہوتی کیونکہ کسی بھی نجی خلائی جہاز نے کبھی بھی زمین کے قریبی پڑوسی پر سافٹ لینڈنگ نہیں کی ہے۔

Published: undefined

لانچ سے چاند کی رفتار تک

پیریگرین قمری لینڈر کو لاک ہیڈ مارٹن اور بوئنگ وینچر ـ یونائیٹڈ لانچ الائنس (ULA)نے مشترکہ تعاون سے تیار کیا اور ولکن سینٹور (Vulcan Centaur) راکٹ کے ذریعےاڑان بھرنے کے بعد اپنے سفر کا پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کیا۔ یہ طاقتور نئے راکٹ ولکن سینٹور کی پہلی پرواز تھی۔ ULA کی اس نئےراکٹ کو پرانے راکٹوں کو تبدیل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ راکٹ نے توقع کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیریگرین قمری لینڈر کو ٹرانس لیونر انجیکشن مدار میں پہنچایا۔ اس میں عین وقت پر انجن کا جلنا شامل ہے جس نے پیریگرین لینڈر کو زمین کے مدار میں ایک ایسے راستے پر دھکیل دیا جو اسے تقریباً 384,400 کلومیٹر دور چاند کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ ہونے دیتا ہے۔ اس کے بعد پیریگرین لینڈر سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنے آن بورڈ تھرسٹرز کو فائر کرے گا لیکن پروپلشن سسٹم میں خامی کے باعث ایسا ممکن نہیں ہوا۔

Published: undefined

پیریگرین قمری لینڈر امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے پانچ سائنسی آلات لے کر جا رہا ہے ۔ اس میں وہ آلات شامل ہیں جو تابکاری کی سطح، سطح اور زیر زمین پانی کی برف، مقناطیسی میدان، اور گیس کی انتہائی کمزور تہہ جسے exosphere کہتے ہیں کی پیمائش کر سکیں۔ اس کے علاوہ جہاز میں پانچ چھوٹے لیونر روور ہیں، جن میں سے ہر ایک کا وزن 60 گرام سے کم ہے اور اس کی پیمائش 12 سینٹی میٹر ہے۔ پیریگرین پر ناسا کے سائنسی آلات اور مختلف تنظیموں اور ممالک کے 15 دیگر پے لوڈ ہیں۔ لینڈر پر کمرشل پے لوڈز میں یادداشتیں اور انسانی باقیات بھی شامل ہیں جنہیں صارفین نے چاند کی سطح پر بھیجنے کے لیے ادائیگی کی تھی۔ان میں جارج واشنگٹن، جان ایف کینیڈی اور ڈوائٹ آئزن ہاور سمیت سابق امریکی صدور کے ڈی این اے شامل ہیں جو اب خلا میں رہیں گے۔ اسٹار ٹریک کے خالق جین روڈن بیری کے ساتھ ساتھ ٹی وی سیریز کے سابق ستاروں کی راکھ بھی جہاز میں موجود ہے۔

Published: undefined

لینڈر کی ناکامی کی خبروں کا جواب دیتے ہوئے ناسا نے کہا کہ وہ ایسٹروبوٹک کے ساتھ مل کر پروپلشن کے مسئلے کی بنیادی وجہ کی نشاندہی کرنے میں مصروف ہے۔ بعد ازاں ناسا نے اپنے آرٹیمس مون پروگرام میں مزید تاخیر کا اعلان کیااورستمبر 2026 میں 50 سالوں بعد پہلے خلاباز کی چاند پر لینڈنگ کا شیڈول بنایا کیونکہ اسپیس ایکس، لاک ہیڈ مارٹن اور دیگر نجی کمپنیوں کے خلائی جہاز کو ترقیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔

پیریگرین لینڈر مختلف قسم کے صارفین کے لیے 20 پے لوڈ لے کر جا رہا ہے۔ اس میں ناسا بھی شامل ہے، جس نے اپنے کمرشل لیونر پے لوڈ سروسز (CLPS) پروگرام کے ذریعے پانچ سائنسی آلات کو جہاز میں رکھا ہے۔ پیریگین کا مشن پہلی CLPS کوشش تھی۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوتا ہے، تب دوسرا مشن اگلے مہینے ہوگااوراسپیس ایکس کا فالکن 9 راکٹ ہیوسٹن کی کمپنی انٹیوٹو مشینز (Intuitive Machines) کے Nova-C لینڈر کو چاند کی طرف روانہ کرے گا۔

Published: undefined

کمرشل لیونر پے لوڈ سروسز( CLPS) پروگرام

ایسٹروبوٹک ٹیکنالوجی ان 14 کمپنیوں میں سے ایک ہے جو کمرشل لیونر پے لوڈ سروسز( CLPS) پروگرام کے ذریعے ناسا کے پے لوڈز کو چاند تک لے جانے کے اہل ہیں۔ اس کا آغاز 2018 میں ہوا تھا اور اسے چاند کی سطح اور چاند کے مدار میں سائنس، ریسرچ اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی تحقیقات کے لیے تجارتی بازار قائم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ CLPS کے ذریعے،ناسا کا مقصد قمری ماحول کے بارے میں نئی معلومات حاصل کرنا اور قمری معیشت کو وسعت دینا ہے تاکہ آرٹیمس پروگرام کے تحت مستقبل میں خلابازوں کے مشنوں کی مدد کی جا سکے۔

Published: undefined

ایسٹروبوٹک ٹیکنالوجی نے ناسا کے ساتھ10 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے معاہدے کے تحت پیرگرین تیار کیا ہے۔ اسے شروع سے ہی نسبتاً سستا بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا - اس کا مقصد ناسا کے اس وژن کو پورا کرنا تھا جس کے تحت نجی شعبے میں مقابلہ کو ترجیح دے کر چاند پر روبوٹک لینڈر لگانے کی لاگت کو کم کرناہے ۔ ایسٹروبوٹک کے سی ای او جان تھورنٹن نے سی این این کو بتایا کہ وہ اس پہلی لانچ کو ایک آزمائشی مشن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق پیریگرین مشن پر کمائی سے زیادہ رقم خرچ ہوئی ہے۔ اگر مشن ناکام ہو گیا تو یہ کمپنی کے لیے کاروبار کا خاتمہ تونہیں ہوگا، لیکن یقینی طور پر چیلنجنگ ہوگا۔

پیریگرین کی قمری لینڈنگ کی کوشش کو ترک کرنا نہ صرف ایسٹروبوٹک کے لیے، بلکہ ناسا اور دیگر ممالک اور اداروں کے لیے بھی ایک بڑے نقصان کی نشاندہی کرتا ہے جو اس لیونرلینڈر پر سوار ہیں۔ ایسٹروبوٹک اب لینڈنگ مینیوور (تدابیر) کی جانچ نہیں کر سکے گی، جو کہ مختلف ممالک اور کارپوریشنز کی طرف سے کی جانے والی قمری لینڈنگ کی پچھلی کوششوں میں سفر میں ایک انتہائی مشکل مرحلہ ثابت ہوا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined