ایسٹرائڈ بینوکے نمونوں سے ہم نظام شمسی کی ابتدا کے بارے میں مزید جان سکیں گے کہ اس وقت کے پتھروں کی کیمیائی خصوصیات کیا تھیں، پانی کیسے وجود میں آیا اورزندگی بنانے والے مالیکیول کیسے بنے
امریکی خلائی ادارے ناسا کا ایسٹرائڈ سے نمونے اکٹھا کرنے والا پہلا مشن، اوسیریس ریکس (OSIRIS-REx) 24 ستمبر 2023 کو ایسٹرائڈ بینو (Asteroid Bennu) کے مواد کے ساتھ زمین پر واپس پہنچ گیا ۔ اس خلائی جہاز نے نمونے کیپسول کے ساتھ ریاست یوٹاہ کے صحرا میں محفوظ لینڈنگ کی ۔ ناسا کے مطابق سال 2020 میں ایسٹرائڈ بینوکی سطح سے جمع کیا گیا پتھر اور دھول پر مبنی یہ قدیم مواد سائنسدانوں کی آئندہ نسلوں کو اس وقت کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا جب سورج اور سیارے تقریباساڑھے چار ارب سال پہلے بن رہے تھے۔ مزید براں ایسٹرائڈ بینو، جس کے مستقبل میں زمین سے ٹکرانے کا امکان ہے، کا نمونہ سائنس دانوں کو نظام شمسی کی ابتدا کے بارے میں مزید جاننے کا موقع فراہم کرے گا ۔
اوسیریس ریکس مشن
اوسیریس ریکس (OSIRIS-REx) کا مطلب ہے: اوریجن، اسپیکٹرل انٹرپریٹیشن، ریسورس آئیڈینٹی فکیشن، سیکورٹی، ریگولتھ ایکسپلورر۔ اوسیریس ریکس 2016 میں لانچ کیا گیا اور 2018 میں اس نے ایسٹرائڈ بینوکے گرد چکر لگانا شروع کیا۔ خلائی جہاز نے 2020 میں نمونہ اکٹھا کیا اور مئی 2021میں زمین پر واپسی کے اپنے طویل سفر پر روانہ ہوا ۔ مشن نے بینوتک اور واپسی میں مجموعی طور پر 3.86 ارب میل( چھ ارب 20 کروڑ کلومیٹر ) کا سفر طے کیا۔
ناسا نے یہ کارنامہ پہلی بار انجام دیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع رپوٹوں کے مطابق خلا میں روانہ ہونے کے سات سال بعد، اوسیریس ریکس خلائی جہاز نے 24 ستمبر2023کو زمین کے گرد اڑان بھری تاکہ ایسٹرائڈ بینو سے حاصل شدہ نمونے فراہم کیے جا سکیں۔ خلائی جہاز نے نمونہ کیپسول کو زمین کی سطح سے 63,000 میل (102,000 کلومیٹر) کے فاصلے سے گرایا، اور تقریباً 27,650 میل فی گھنٹہ (44,498 کلومیٹر فی گھنٹہ)کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے صبح 10:42 بجے زمین کی فضا میں داخل ہوا۔ کیپسول کی رفتار کو آہستہ تقریباً 11 میل فی گھنٹہ (17.7 کلومیٹر فی گھنٹہ) کرنے کے لیے پیراشوٹ تعینات کیے گئے ۔ فضا میں داخل ہونے کے تقریباً 10 منٹ بعد،یہ نمونہ ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے یوٹاہ ٹیسٹ اور ٹریننگ رینج میں مقررہ وقت سے چند منٹ پہلے پہنچا۔
ناسا کے منتظم بل نیلسن کا کہنا ہے کہ ان نمونوں سے نظام شمسی کی ابتدا کی جھلک سامنے آئے گی۔ انہوں نے اوسیریس ریکس ٹیم کو مبارکباددی اور کہا، ’یہ کچھ غیر معمولی لے کر آیاہے، زمین پر اب تک کا سب سے بڑا ایسٹرائڈ کا نمونہ۔ یہ مشن ثابت کرتا ہے کہ ناسا بڑے کام کرتا ہے، وہ چیزیں جو ہمیں متاثر کرتی ہیں، وہ چیزیں جو ہمیں متحد کرتی ہیں۔ یہ مشن ناممکن نہیں تھا۔ یہ ناممکن تھا جو ممکن ہو گیا‘۔
دریں اثنا اوسیریس ریکسنظام شمسی کا اپنا دورہ جاری رکھے ہوئے ہے - خلائی جہاز اپوفس (Apophis)نامی ایک مختلف ایسٹرائڈ پر تفصیلی نظر ڈالنے کے لیے روانہ ہو چکا ہے اور اب مشن کا نیا نام اوسیریس ایپکس (OSIRIS-APEX) اوریجن، اسپیکٹرل انٹرپریٹیشن، ریسورس آئیڈینٹی فکیشن، سیکورٹی، اپوفس ایکسپلورر
ناسا کی ریکوری اور ریسرچ ٹیموں نے لینڈنگ کے مقام پر اس بات کو یقینی بنایا کہ کیپسول کو کسی بھی طرح سے نقصان نہیں پہنچے۔ ٹیموں نے تصدیق کی کہ لینڈنگ کے دوران کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔ اس مشن میں لاک ہیڈ مارٹن اسپیس نے ناسا کے ساتھ خلائی جہاز کی تعمیر، فلائٹ آپریشن فراہم کرنے اور 100 پاؤنڈ کےکیپسول کی بحالی میں مدد کی۔
حفاظتی دستانے اور ماسک سے لیس ابتدائی بحالی ٹیم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کیپسول چھونے کے لیے کافی ٹھنڈا ہو جائے، اس لیے کہ فضا میں دوبارہ داخلے کے دوران اس کا درجہ حرارت 5000 ڈگری فارن ہائیٹ (2760 ڈگری سیلسیس) تک پہنچ گیا تھا۔ ٹیم نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ کیپسول کی بیٹری نہ پھٹے اور کوئی زہریلا دھواں نہ نکلے۔ ساتھ ہی ایک سائنسی ٹیم نے لینڈنگ کی جگہ سے نمونے اکٹھے کیے جن میں ہوا، دھول اور مٹی کے ذرات شامل ہیں۔
بعد ازیں کیپسول کو لینڈنگ سائٹ کے قریب ایک عارضی جگہ پہنچایاگیا۔ اس جگہ کے اندر، کیوریشن ٹیم ایک نائٹروجن کا بہاؤ کرے گی، جسے پرج (purge)کہا جاتا ہے، تاکہ زمینی ماحول کو نمونے کے کنسترمیں داخل ہونے اور اسے آلودہ ہونے سے روکا جا سکے۔ سائنسدانوں کو توقع ہے کہ 26 ستمبر کو پہلی بار نمونہ دیکھنے کے لیے ڈھکن کو ہٹا یا جائے گا۔
ابتدائی تجزیہ اکتوبر میں متوقع
ایسٹرائڈ بینو کےنمونے کا ابتدائی تجزیہ معدنیات اور کیمیائی عناصر کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے کیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق نمونے کے بارے میں تفصیلات 11 اکتوبر کو جانسن اسپیس سینٹر سے ناسا کی نشریات کے ذریعے سامنے آئیں گی۔ اگرچہ سائنسی ٹیم کو نمونے کا مکمل جائزہ لینے کا وقت نہیں ملے گا، محققین 26 ستمبر کو کنستر کے اوپری حصے سے کچھ باریک مواد جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ایک فوری تجزیہ اکتوبر میں فراہم کیا جا سکے ۔
اگلے دو سالوں تک سائنسدان جانسن اسپیس سینٹر میں پتھروں اور مٹی کا تجزیہ کریں گے۔ نمونے کو تقسیم کرکے دنیا بھر کی لیبارٹریوں کو بھیجا جائے گا، بشمول اوسیریس ریکس مشن کے شراکت دارـ کینیڈا کی خلائی ایجنسی اور جاپانی ایرو اسپیس ایکسپلوریشن ایجنسی۔ تقریباً 70فیصد نمونہ اسٹوریج میں محفوظ رہے گا تاکہ بہتر ٹیکنالوجی سے لیس آنے والی نسلیں اس سے بھی زیادہ سیکھ سکیں جو ابھی ممکن ہے۔
جاپان کے ہیبوساـ2 (Hayabusa-2)مشن سے ایسٹرائڈ ریوگو (Ryugu)سے حاصل کیے گئے نمونے کے ساتھ، پتھراور مٹی ہمارے نظام شمسی کے آغاز کے بارے میں اہم معلومات کو ظاہر کر سکتی ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سیارے کی تشکیل کے ابتدائی دورمیں ، کاربونیسیئس ایسٹرائڈ جیسے بینو ، زمین سے ٹکرا کر پانی کے وجود میں آنے کا باعث بنے۔
برطانیہ کی ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی کے خلانورد ڈینئیل براؤن نے’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ ان نمونوں کے معائنے سے ہم نظام شمسی کی ابتدا کے بارے میں مزید جان سکیں گے کہ اس وقت کے پتھروں کی کیمیائی خصوصیات کیا تھیں اور پانی کیسے وجود میں آیا جب کہ زندگی بنانے والے مالیکیول کیسے بنے؟
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایسٹرائڈ بینو نظام شمسی کے اپنے قدیم ترین مادوں کا نمائندہ ہے جو بڑے مرتے ہوئے ستاروں اور سپرنووا دھماکوں سے بنا ہے ۔ اور اسی وجہ سے، ناسا چھوٹے مشنوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ ہماری سمجھ میں اضافہ ہو کہ ہمارا نظام شمسی کیسے بنا اور اس کا ارتقا کیسے ہوا۔
سائنس دانوں کے مطابق ایسٹرائڈ بینو کے مستقبل میں زمین سے ٹکرانے کا امکان ہے۔ لہٰذا زمین کے قریب ان سیارچوں کی آبادی کے بارے میں مزید سمجھنا بہت ضروری ہے جو ہمارے سیارےزمین کے ساتھ تصادم کے راستے پر ہو سکتے ہیں۔ ان کی ساخت اور مداروں کی بہتر سمجھ یہ پیش گوئی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کون سے ایسٹرائڈ زمین کے قریب ترین پہنچ سکتے ہیں اور کب ۔ سائنس دانوں کے لیے یہ معلومات ایسٹرائڈ کوزمین سے دور ہٹانے یا دھکیلنے کے طریقے تیار کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز