کہا جا رہا ہے کہ کسی بلندو بالا عمارت کے برابر اس خلائی چٹان پر نامیاتی مرکبات موجود ہو سکتے ہیں اور آئندہ ایک سو پچاس برس میں اس کا زمین سے ٹکرانے کا امکان بھی ہے۔
Published: undefined
اوزیرس ریکس کو ستمبر 2016ء میں اس مشن پر روانہ کیا گیا تھا اور یہ اگلے سات برس تک بینو نامی خلائی چٹان کا قریبی مشاہدہ جاری رکھے گا اور اس کی سطح سے نمونے اور دیگر مواد حاصل کر کے واپس زمین پہنچے گا۔
Published: undefined
بینو ٹھوس مواد سے بنا کوئی ایک تہائی میل بڑا شہابیہ ہے اور سورج کے گرد قریب اتنے ہی فاصلے پر محوگردش ہے، جتنے فاصلے پر زمین۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس شہابیے پر کاربن سے بنے مرکبات موجود ہیں، جو نظام شمسی کی تخلیق کے وقت جتنے پرانے ہیں۔ زندگی کی ارتقا سے متعلق ایک اور اہم مرکب پانی بھی ممکنہ طور پر مالیکیولز کی صورت میں اس شہابیے میں مل سکتا ہے۔
Published: undefined
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اسی طرز کے شہابیے زمین کی پیدائش کے وقت زمین سے ٹکرائے تھے، جس کے تحت زمین پر پانی اور نامیاتی مرکبات پہنچے تھے، جو بعد میں زندگی کے آغاز کی بنیاد بنے۔ محققین کے مطابق بینو اس نظریے کو ثابت کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
Published: undefined
اس سیارچے کے مطالعے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سائنس دانوں کے اعداد و شمار کے مطابق ایک بٹا ستائیس سو امکان یہ ہے کہ یہ شہابیہ اگلے ایک سو چھیاسٹھ برس میں زمین سے ٹکرا سکتا ہے اور ایک بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ناسا بینو کو زمین کے لیے خطرہ قرار دیے گئے ایسے شہابیوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اس فہرست میں 72 ایسی خلائی چٹانیں موجود ہیں، جو زمین سے ٹکرا جانے کا امکان رکھتی ہیں۔
Published: undefined
اوزیرس ریکس ہر چھ برس میں زمین کے انتہائی قریب سے گزرتا ہے اور اس کی محوری گردش کے راستے پر فرق پڑتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق سن 2020 تک اس سیارچے سے حاصل ہونے والے نمونوں کے بعد زیادہ بہتر انداز سے جانا جا سکے گا کہ بینو اگلے ڈیڑھ سو برس میں زمین پر کس انداز کے اثرات کا حامل ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سن 2135 میں بینو زمین سے چاند سے زیادہ کم فاصلے سے گزرے گا۔ واضح رہے کہ چاند زمین سے فقط ڈھائی لاکھ میل کے فاصلے پر ہے۔
Published: undefined
پیر کے روز اوزیرس ریکس اس شہابیے سے فقط بارہ میل دور تھا جب کہ دسمبر میں یہ خلائی جہاز اس سیارے سے ایک اعشاریہ دو میل کے فاصلے پر پہنچ جائے گا اور یہاں سے اس سیارچے کی ثقلی کشش کا دائرہ بھی شروع ہو جائے گا۔
Published: undefined
بتایا گیا ہے کہ اس مقام سے خلائی جہاز نہایت آہستگی کے ساتھ اس سیارچے کے جانب بڑھے گا اور سیارچے کی سطح سے صرف چھ فٹ کے فاصلے سے اس خلائی جہاز کے روبوٹک بازو بینو کی سطح میں داخل ہو کر نمونے حاصل کرے گا۔ جولائی 2020ء میں بینو سے نمونے حاصل کرنے کے بعد اوزیرس ریکس دوبارہ زمین کے سفر پر روانہ ہو جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined