میسوپوٹامیا میں انسانی تہذیب کی شروعات تقریباً 10000 سال (ق م) میں ہوئی اور یہاں پر انسانی تہذیب کے ارتقاء نے دنیا کو اہم چیزیں دیں۔ گول پہیہ، اناج کی کھیتی باڑی، پہلی لکھائی زبان، فلکیات اور دنیا کے پہلا شہر۔ یہ عظیم تہذیب دو دریاؤں دجلہ اور فرات کے درمیان آس پاس کے علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ سومیریا اور اکاڈین کا دبدبہ 3100 ق م سے 539 ق م تک رہا، جب سکندر اعظم نے اس کو فتح کیا، اس کی وفات کے بعد یہ علاقہ یونانیوں کے قبضہ میں آگیا۔
Published: undefined
ہم یہاں پر خاص طور پر ان چیزوں کا ذکر کریں گے جن کی وجہ سے دنیا کا پہلا شہر اوروک وجود میں آیا۔ تفصیلی کھدائیوں میں حاصل ہوئی چیزوں اور خاص کر شہر کے انتظام سے متعلق قلم بند لکھائی سے اوروک میں ہونے والی تہذیبوں کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ پوری کہانی لیورنی نے اپنی کتاب ’’پہلا شہر‘‘ میں بیان کیا ہے۔
Published: undefined
نچلے جنوبی میسو پوٹامیا کے علاقہ میں کھیتی کی پیداوار کو بڑھانے کے لئے بڑے پیمانہ پر مل جل کر آبپاشی کی سہولت کو مہیا کرنے کے عمل میں گاؤں سے شہر وجود میں آئے۔ جغرافیائی فرق کی وجہ سے نچلے جنوبی میسو پوٹامیا میں بمقابلہ شمال کے علاقہ آبپاشی کھیتی کے لئے ضروری تھی۔ شمالی میسو پوٹامیا ایک وادی ہے جہاں پر دریا کے آس پاس کھیتی ہو رہی تھی اور وہاں پانی کی ضرورت موسمی سیلابوں سے ہوجاتی تھی۔ اس کے برخلاف جنوبی علاقہ ایک ستواں میدانی علاقہ ہے جو ان دریاؤں کا ڈیلٹا ہے جو اس علاقہ میں کامیاب کھیتی کے لئے آبپاشی بہت ہی اہم ہے۔
Published: undefined
آبپاشی کے مشکل انتظام کو انجام دینا اور اس کو اچھی حالت میں رکھنے کے لئے بہت سارے لوگوں کا ایک ساتھ مل جل کر کام کرنا ضروری تھا۔ دریاؤں کے کنارے سے دور بڑے کھیتوں تک پانی پہنچانے کے کام کو مرکزی کمیٹی ہی انجام دے سکتی ہے۔ آبپاشی کی شروعات کے بعد کھیتی کے کام سے متعلق کئی اور ایجادات کا راستہ ہموار ہوا۔ کھیتوں میں جانوروں کا استعمال کرکے ہل کا استعمال اور بیج بونے کا طریقہ۔ آبپاشی کے ساتھ ان نئی ایجادات کی وجہ سے پیداوار اور خاص کر باجرہ کی پیداوار میں پانچ سے دس گنا اضافہ ہوا ہوگا۔
Published: undefined
کھانے پینے کے سامان کی فراوانی، سماج میں برابری، زیادہ تر گھروں کی ایک جیسی بناوٹ، دفنانے کے لئے قبروں کی بناوٹ میں کوئی خاص تبدیلی کافی عرصہ تک نہیں ہوئی، اس کے برخلاف مندروں کے سائز اور خوبصورتی میں زبردست تبدیلیاں ہوئیں۔ لیورنی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ اعلیشان بڑے مندروں سے یہ لگتا ہے کہ پورے سماج پر مندروں اور پجاریوں کو دبدبہ تھا جو کہ سماج میں معنیٰ خیز تبدیلیوں کا ایک پیش خیمہ تھا۔ برابری والے سماج میں ابھرتی ضرورتیں، جس میں بہت سارے لوگوں کو مل کر کام کرنا پڑا، اس کی آڑ میں لوگوں سے ٹیکس وصولی کے نام پر مندر کے انتظام کرنے والے لوگ عام لوگوں پر حاوی ہونے لگے۔ اس کام کو کرنے کے لئے زور زبردستی شاید مہنگی ثابت ہوتی، اس لئے ابھرتے مذہب اور دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کا استعمال شروع ہوا۔ مندر جو خدا کا گھر کہلاتے تھے وہ سب سے بڑے زمیندار ہوگئے اور مندر کے پجاری لوگوں سے کھیتی کی پیداوار کا ایک حصہ لے کر طے کرتے کہ اس کو کیسے استعمال کیا جائے گا۔
Published: undefined
ان چیزوں کو اچھی طرح کرنے کے عمل میں ایک طبقہ حساب کتاب کی فکر کرتا تھا کہ کس نے کتنا ٹیکس کب دیا، کاری گر جو مندروں میں خوبصورت مورتیاں بناتے تھے اور تجارت کے کام کرنے والے جو عالیشان مندروں کے سامان بنانے کے علاوہ دیگر ضرورت کا سامان مختلف جگہوں سے حاصل کرتے تھے، زیورات بنانے کے لے قیمتی پتھر اور مختلف دھات کی چیزیں باہر سے ہی آئیں کیونکہ یہ چیزیں اوروک میں نہیں ہوتی تھیں۔
Published: undefined
تحقیقات سے یہ اچھی طرح معلوم ہوا ہے کہ کس طرح مذہبی اور سماجی سبھی اوروک کے ابھرتے شہر کے پورے تانے بانے کو سنبھالے ہوئے تھی۔ کھیتی باڑی کرنے والے لوگ جن کی زندگی پیدوار اور مویشیوں کے نشونما پر منحصر تھی ان کے لئے ایسے دیوتا اہم تھے جو اچھی پیداوار کی ضمانت لے سکیں۔ مختلف چیزوں کے لئے کئی طرح کے دیوتا ابھرنے لگے۔ مندروں کے لئے بیگار کام دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے عام ہوگیا اور ان کی شان میں نظمیں، کہانیاں عام لوگوں کی زندگی کا حصہ بننے لگیں۔ ان کہانیوں میں خاص توجہ ساتھ مل جل کرکام کرنے پر تھی۔ ایک خاص دیوتا، اٹرم ہس سے متعلق اس کہانی کا لب و لباب یہ ہے کہ اسنانوں کو اس لئے بنایا گیا کہ چھوٹے دیوتا کھیتی کرتے ہوئے تھک گئے اور اب انسان کا سب سے اہم کام بڑے دیوتاؤں کے لئے کھیتی باڑی کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔
Published: undefined
اگلی قسط میں ہم اس پر غور کریں گے کہ اوروک سے حاصل ہوئی شہروں کے ابھرنے کی سمجھ سے ہم وادی سندھ کی تہذیب کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز