سائنس

کیا گوگل انسانوں کو کند ذہن بنا رہا ہے؟

آپ سے سوال کیا پوچھا گیا ہے کہ آپ جیسے جواب سوچ ہی نہیں پا رہے۔ سوچ سوچ کے بے حال ہیں، مگر جواب سوجھنے کا نام نہیں لے رہا۔ سائنس دانوں کے مطابق اصل مسئلہ آپ نہیں گوگل ہے۔

تصویر ڈی ڈبلیو ڈی
تصویر ڈی ڈبلیو ڈی 

ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں نیوروسائنٹِسٹ اور مصنف ڈین برنیٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ماضی میں لوگ لمبے لمبے مضامین، نظمیں اور دیگر مواد یاد کرتے تھے اور اس طرح انہیں کہیں کچھ سنانے میں آسانی ہوتی تھی، اسکولوں میں بھی ایسا ہی سکھایا جاتا تھا۔ برنیٹ کا کہنا ہے کہ بہت سا مواد ذہن نشین کر لینا ذہانت کی علامت نہیں اور نہ ہی ایسی اہلیت کا نہ ہونا آپ کے ’کندذہن‘ ہونے کی نشانی نہیں۔

Published: 02 Sep 2018, 5:53 AM IST

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ذہانت کا انحصار کئی چیزوں پر ہے، جن میں جینیاتی عناصر بھی شامل ہیں اور سماجی و ثقافتی ماحول بھی، تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ کوئی شخص معلومات کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ ’’مگر اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ہمیں زیادہ معلومات کی بھی ضرورت ہے اور اس امر کی بھی کہ ذہن اس معلومات کو پراسیس کیسے کرتا ہے۔‘‘

Published: 02 Sep 2018, 5:53 AM IST

سوال تاہم یہ ہے کہ گوگل نے ہمارے ذہن کو کیسے متاثر کیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں برنیٹ نے کہا، ’’اسے ٹھوس انداز سے بیان کرنا مشکل ہے، کیونکہ گوگل بہت کم عرصے سے ہمارے درمیان ہے اور یہ مدت ایسی نہیں کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کی وجہ سے ہمارے نیورولوجیکل ردعمل کے ارتقا پر فرق پڑا ہے۔ تاہم یہ بات یقیناً دیکھی جا سکتی ہے کہ لوگ اب ذہن پر زور ڈالنے یا سوچنے کی بجائے فوراً ہی گوگل کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

Published: 02 Sep 2018, 5:53 AM IST

برنیٹ کے مطابق انسانی دماغ عام حالات میں چونکہ انوکھے پن کو عمومی چیزوں پر فوقیت دیتا ہے اور گوگل ایسے میں کسی موضوع پر لامحدود امکانات کے اچھوتے خیالات سامنے لا رکھتا ہے اس لیے انسان سوچنے اور تدبر کرنے کی بجائے اس کی جانب لپٹ پڑتے ہیں۔ ’’ٹیکنیکلی آپ یہ معاملہ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس پر بھی لاگو کر سکتے ہیں۔‘‘

نیورولوجیکل سائنس دان برنیٹ کے مطابق معلومات کا یہ بے کراں ذخیرہ یقیناً دماغ اپنے پاس رکھنا چاہتا اور اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پاس موجود کسی خاص خیال پر تکیہ کرنے کی بجائے گوگل کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے۔

Published: 02 Sep 2018, 5:53 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 02 Sep 2018, 5:53 AM IST