(21 ویں قسط)
جو بیج 7000 (ق م) میں بلوچستان کے مہر گڑھ میں بویا گیا اس کو تقریباً 5000 سال لگے اور وہ ہڑپا کی تہذیب (1900-2600 ق م) کی شکل میں ایک تناور درخت بنا۔ ہر کھیتی باڑی کرنے والا معاشرہ کسی بڑی تہذیب کی شکل میں نہیں بدلتا لیکن کسی بھی تہذیب (Civilisation) کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کھیتی باڑی کی منزل سے گزرا ہو۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ جیسے جیسے کھیتی کی پیداوار بڑھے گی آبادی کے کچھ لوگوں کو فصلیں اگانے کے کام سے چھٹی ملے گی اور وہ لوگ اچھی عمارتیں بنانے کا کام ، نئے اوزاروں کی ایجاد، فصلوں اور تجارت کا حساب کتاب ، قیمتی زیورات کا بنانا بڑھتی آبادی کے لئے مکانات ، محلوں ، سڑکوں اور کھیتوں میں فصلوں کے لئے وقت پر نہروں اور تالابوں سے پانی کا انتظام کرنے جیسے کاموں کو کریں گے اور ان کی وجہ سے فصلوں کی اوپج اور بڑھے گی ،جس کے نتیجہ میں کھتی میں مصروف آبادی کا ایک اور حصہ آزاد ہوگا اور نئی نئی چیزوں کی ایجاد ہوگی، جن سے زندگی سہل ہوسکے۔ یہ سب بھی ممکن ہے جب کوئی معاشرہ اپنی پیداوار کو اتنا بڑھائے کہ کافی لوگ کھیتی کرنے سے آزاد ہو کر اور کاموں میں مصروف ہوں۔
Published: undefined
دنیا بھر کی زبانوں کے ماہرین کی پچھلے 100 سالوں کی کوششوں کے باوجود ہم ابھی تک ہڑپا کے لوگوں کی لکھی ہوئی زبانوں کو نہیں سمجھ پائیں ہیں اس لیے صرف کھدائی سے حاصل ہوئی چیزوں کو دیکھ کر ان کی زندگی گزارنے کے طور طریقوں کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں۔
Published: undefined
مہر گڑھ کے دو کمروں کے مکانات اور کھیتوں سے لے کر ہڑپا ، موہن جودارو اور ڈھولا اویرا کی حیرت انگیز عمارتوں تک کے سفر کے بارے میں بہت تفصیل سے معلومات حاصل ہوچکی ہیں۔ ہم کو یہ معلوم ہے کہ کچی وادی کے گاؤں سے کھیتی باڑی دھیمے دھیمے بلوچستان ، سندھ وادی ، گھگرہکرا وادی اور گجرات کے آس پاس پھیلی اور چند ہزار سالوں میں چھوٹے چھوٹے شہروں میں الگ الگ ابھرنے لگے۔ اور پھر 2600 ق م تک یہ سارے شہر مل کر ہڑپا کی تہذیب کی مشکل میں ابھرے جو دو بڑی دریاؤں سندھ اور گھگرہکرا ( جواب سوکھ گئی ہے) کے آس پاس کے پورے علاقے میں پھیل گئی۔ یہ تہذیب تقریبا ً پورے پاکستان ، افغانستان،مغربی ہندوستان میں پنجاب ، راجستھان ، ہریانہ، اترپردیش اور گجرات تک پھیل گئی۔
Published: undefined
مہر گڑھ کے بعد دھیمے دھیمے وقت گزرنے کے ساتھ سلسلہ وار ترقی ہوتے ہوئے ہم پرانی دنیا کی ایک حیرت انگیز تہذیب تک پہنچے، یہ اس بات کی شہادت ہے کہ ہڑپا کے لوگ کہیں باہر سے نہیں آئے اور انھوں نے اپنی محنت اور سمجھ سے اس بڑی تہذیب کو جنم دیا۔
Published: undefined
یہ خیال کہ ہڑپا کی تہذیب میسوپوٹامیا کی تہذیب کی ایک شاخ ہے، یقیناً غلط ہے۔ میسوپوٹامیا کی تہذیب 4 ہزار (ق م ) سے 330 ق م تک رہی ، جب اس کو الیگزنڈر نے فتح کرلیا اور اس کا پورا علاقہ موجودہ عراق ،کویت ،سعودی عرب ، ترکی ، سیریا اور ایران کا حصہ شامل تھا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ ہڑپا کے شہروں کو بنانے والے میسوپوٹا میاسے آئے۔ حالانکہ یہ صحیح ہے کہ ہڑپا کی تہذیب کو جنم دینے والے لوگوں میں ایران کے ذغروس پہاڑی کے لوگوں اور افریقہ سے آنے والے پہلے ہندوستانیوں کی ملاوٹ ہے۔ لیکن یہ ہڑپا کی تہذیب سے ہزاروں سال پہلے ملاوٹ ہوچکی تھی۔ یہ بات تو بالکل ایسی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ چین ، امریکہ ، یورپ اور آسٹریلیا کے سبھی انسان ابھی بھی افریقی ہیں کیونکہ ہوموسیپین 70-80 ہزار پہلے افریقہ سے آئے۔
Published: undefined
لیکن ان باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ میسوپوٹامیا اور ہڑپا کے بیچ کوئی رابطہ نہیں تھا۔ دونوں جگہوں پر کھدائی سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ان دونوں تہذیبوں میں آپس میں تجارتی اور کلچر لین دین مستقل ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر میسوپوٹا میا کی بہت ساری ٹبلیلٹ میں سندھ میں ہونے والی بھینسوں کی شکل بنی ہے جو وہاں نہیں ہوتی تھی۔ کچھ تصویروں میں کوئی شخص ان بھینسوں کو پانی پلا رہا ہے اور کوئی ان کو قابو میں کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ تمام ٹیبلٹ اکاڈین بادشاہ سارگون کے زمانہ کے ہیں۔
Published: undefined
کھدائی کے ماہروں کا خیال ہے کہ ہڑپا کے پانی کے بڑے جہازوں پر ان بھینسوں کو تحفہ کے طور پر میسوپوٹا میا لے گئے اور اکاڈین کے بادشاہ کو نظر کیا۔ سارگون نے ان تحفوں سے خوش ہو کر ذکر کیا ہے کہ یہ میلوہا سے اس کے پاس آئیں ہیں۔ میلوہا کے نام سے وہ لوگ ہڑپا کے کو جانتے تھے۔ میسوپوٹا میا میں ہاتھی، گینڈا اور مور بھی میلوہا (ہڑپا) سے گئے۔ ان جانوروں کے علاوہ کچھ فصلوں کے بیچ بھی وہاں پہنچے، جو انھوں نے اپنے موسم کے اعتبار سے اپنائے۔ ان چیزوں کا ذکر لیورینی نے اپنی کتاب ’اوروک: دنیا کا پہلا شہر‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔
Published: undefined
میسوپوٹا میا میں ہڑپا تہذیب کے نشانات کے ساتھ ساتھ ہڑپا میں بھی وہاں کے نشانات ہیں۔ موہن جودارو میں پانچ مہریں اور اور چھالیسی ٹیبلیٹ ملی ہیں جن میں ایک نوجوان اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک چیتے (ٹائیگر) سے لڑ رہا ہے۔ یہ سومیرا کے بادشاہ گلگامش کی پرانی کہانی کی یاد دلاتا ہے، میسوپوٹا میا میں زیادہ تر ان مہروں میں بہادر نوجوان شیر سے لڑتا دکھا گیا ہے، جبکہ ہڑپا میں اس کی طرح کی مہروں میں چیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں جگہوں پر بہادری کی یہ داستان ان تہذیبوں کے ابھرنے سے پہلے ہی مقبول رہی ہوں گی اور ان کہانیوں کو یہ دونوں تہذیبیں اپنے اپنے انداز میں سمجھتی ہوں گی۔
ہڑپا اور میسوپوٹا میا میں آپسی تال میل کی بقیہ کہانی اگلی قسط میں ملاحظہ کریں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined