اگلی بار جب آپ کے موبائل پر ایسی کال آئے جس میں کہا جائے کہ ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آپ کا فون کاٹنے جا رہی ہے، یا فون پر دعویٰ کیا جائے کہ آپ کے نام پر ایک پارسل ملا ہے جس میں منشیات، فرضی پاسپورٹ، یا فحش مواد شامل ہے، تو جواب نہ دیں۔ چاہے فون کرنے والا یہ دعویٰ کرے کہ وہ پولیس، ای ڈی، سی بی آئی یا نیشنل کرائم بیورو سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ ایک ایڈوائزری کے مطابق ایسی فرضی فون کالز آپ کے پیسے ہتھیانے کی سازش ہو سکتی ہیں۔ اس ’ڈیجیٹل‘ انڈیا میں ایک فون کال پر ہی آپ کو "گرفتار" کیا جا سکتا ہے اور آپ کی تمام جمع پونجی بھی چھینی جا سکتی ہے۔
مرکزی وزارت داخلہ کے سائبر کرائم پورٹل کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2024 کے پہلے 6 مہینوں میں 11,269 کروڑ روپے کی ٹھگی کی گئی۔ ان میں وہ کیسز شامل نہیں ہیں جو مختلف ریاستوں کی پولیس کے سائبر کرائم سیلز میں درج کیے گئے۔ وزارت داخلہ کے تحت قائم انڈین سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر کے اندازے کے مطابق، اگلے ایک سال میں سائبر دھوکہ دہی سے ملک کو 1.2 لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ہر روز اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے چار ہزار فرضی بینک اکاؤنٹس کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
سینٹر نے یہ بھی معلوم کیا کہ اس سال مارچ سے مئی کے دوران ایسے اکاؤنٹس کے ذریعے ساڑھے پانچ کروڑ روپے کی کرپٹو کرنسی خریدی گئی، جو بعد میں ملک سے باہر منتقل ہو گئی۔ ملک کے اندر تقریباً 18 ایسے اے ٹی ایم ہاٹ اسپاٹ دریافت کیے گئے جہاں دھوکہ دہی سے رقم نکالی گئی۔ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جہاں دبئی، ہانگ کانگ، بینکاک اور روس کے اے ٹی ایمز سے رقم نکالی گئی۔ وزارت خارجہ نے کمبوڈیا سے 250 ہندوستانیوں کو آزاد کرایا ہے، جنہیں ملازمت کے بہانے وہاں لے جایا گیا تھا اور انہیں زبردستی آن لائن دھوکہ دہی کے کاموں میں ملوث کیا گیا۔ ان میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ شامل ہیں جو بھارتی فون نمبروں کا استعمال کرتے ہیں۔ حکام نے ایک اور مرکز کا پتہ لگایا ہے جو آذربائیجان سے کام کر رہا ہے۔
یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کسی کی ای میل ہیک کر کے ایمرجنسی کی آڑ میں اس کے رابطوں سے پیسے لینا اب پرانا طریقہ ہو چکا ہے۔ اب آن لائن دھوکہ باز زیادہ جدید اور مؤثر طریقے استعمال کر رہے ہیں۔
سائبر دھوکہ دہی کا یہ کاروبار حیران کن ہے۔ 26 اور 27 اکتوبر کو دہلی میں برطانوی بینڈ کولڈ پلے اور پنجابی گلوکار دلجیت دوسانجھ کا میوزک کنسرٹ ہوا۔ 2500 سے 20000 روپے مالیت کے اس کے ٹکٹ چند منٹوں میں بک ہو گئے۔ اس کے بعد انٹرنیٹ پر بلیک مارکیٹ میں یہ ٹکٹ 10000 سے 50000 روپے میں فروخت ہونے لگے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس قیمت پر خریدنے والے بھی بہت تھے۔ لیکن جب کئی لوگوں کو پریمیم ٹکٹ خریدنے کے باوجود جواہر لال نہرو اسٹیڈیم کے دروازے سے خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا، تو معلوم ہوا کہ ان کے ٹکٹ فرضی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کنسرٹ کے منتظمین کی کمائی سے زیادہ ان سائبر دھوکہ بازوں نے کما لیا۔
Published: undefined
سائبر قانون کے ماہر پون دُگّل کا کہنا ہے کہ "کووڈ-19 کے بعد کے دور میں سائبر جرائم کا سنہری دور شروع ہو چکا ہے، جو کئی دہائیوں تک جاری رہنے والا ہے۔" سائبر جرائم کا یہ کھیل اب زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں پھیل چکا ہے۔ سائبر سیکیورٹی ماہر امیت دوبے کہتے ہیں کہ سائبر مجرم آپ کے آلے کو نہیں بلکہ آپ کو ہیک کرتا ہے۔ اس کے بعد آپ وہی کرتے ہیں جو وہ چاہتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال 'ڈیجیٹل گرفتاری' ہے، جس کا ذکر وزیر اعظم نریندر مودی تک کو کرنا پڑا۔
لکھنؤ کی سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں نیورولوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر روچکا ٹنڈن کو کچھ ہفتے پہلے ایک فون آیا۔ فون کرنے والے نے دعویٰ کیا کہ ان کے نام پر بھیجا گیا ایک پارسل ضبط کیا گیا ہے، جس میں فرضی پاسپورٹ اور منشیات موجود ہیں۔ بتایا گیا کہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہے اور انہیں اسکائپ پر پولیس اسٹیشن سے رابطہ کرنا ہوگا۔ اسکائپ پر ایک پولیس اسٹیشن جیسا ماحول دکھایا گیا، جہاں وردی میں موجود ایک انسپکٹر ان سے بات کر رہا تھا۔ اسکائپ پر ہی انہیں عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں حکم دیا گیا کہ انہیں 'ڈیجیٹل طور پر گرفتار' کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے موبائل کا کیمرہ ہمیشہ آن رہے گا اور وہ کسی سے رابطہ نہیں کر سکتیں۔ اگر انہوں نے فون کاٹ دیا یا کسی سے بات کی، تو پولیس ان کے گھر پہنچ کر انہیں گرفتار کر لے گی۔ بعد میں، اس فرضی قانونی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے ان سے ضمانت کے طور پر دو کروڑ روپے طلب کیے گئے۔ انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ کسی بھی طرح یہ رقم جمع کریں، چاہے بینک سے فکسڈ ڈپازٹ توڑنی پڑے۔ یہاں تک کہ بینک والوں کو کیا بتانا ہے، یہ بھی سمجھایا گیا۔ روچکا کو اپنی والدہ کی ایف ڈی (فکسڈ ڈپازٹ) بھی توڑنی پڑی۔
جب رقم منتقل ہو گئی، تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی ضمانت ہو گئی ہے اور وہ اپنے کام پر جا سکتی ہیں۔ بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہو چکا ہے۔
حالیہ دنوں میں ایک اور ایسا ہی واقعہ ایک نیوز چینل کی خاتون صحافی کے ساتھ پیش آیا، جہاں انہیں بھی ڈیجیٹل گرفتاری کا شکار بنایا گیا لیکن سب سے چونکا دینے والا معاملہ وردھمان گروپ کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر ایس پی اوسوال کا ہے۔ ان کی 'ڈیجیٹل گرفتاری' کے بعد سات کروڑ روپے ادا کیے گئے، تب جا کر انہیں پتہ چلا کہ وہ سائبر جرائم کا شکار ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
دنیا کے سب سے امیر سرمایہ کاروں میں شمار ہونے والے وارن بفٹ کا کہنا ہے کہ ’سائبر جرائم انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ یہ خطرہ ایٹمی ہتھیاروں سے بھی زیادہ سنگین ہے۔‘ کینیڈا کی سائبر سکیورٹی کمپنی 'ای سینٹائر' کے مطابق، سال 2024 میں دنیا بھر میں کل 9.5 ٹریلین امریکی ڈالر کا سائبر جرم ہونے کا اندازہ ہے۔
اتر پردیش کے سابق آئی جی ڈی کے پانڈا کے ساتھ آن لائن ٹریڈنگ کے ذریعے 381 کروڑ روپے کے فراڈ کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اگر یہ الزام درست ہے تو یہ شاید سائبر جرائم کی تاریخ میں کسی فرد کے ساتھ ہونے والے سب سے بڑے مالی نقصان میں سے ایک ہوگا۔ پانڈا نے جس ایپ پر سرمایہ کاری کی تھی، اس سے رقم واپس مانگنے پر یہ رقم ان کے اکاؤنٹ میں واپس نہیں آئی۔
سرمایہ کاری کے نام پر سائبر فراڈ عام ہو چکا ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو ایسے واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا جاتا ہے جو دیکھنے میں سرمایہ کاروں کا لگتا ہے۔ اس گروپ میں ایک ایپ کا ذکر کیا جاتا ہے، جسے لوگ انسٹال کر کے سرمایہ کاری شروع کر دیتے ہیں۔ ایپ پر ان کے پیسے بڑھتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں، لیکن جب کوئی رقم نکالنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایپ کام کرنا بند کر دیتی ہے۔ تب جا کر پتا چلتا ہے کہ پوری رقم ضائع ہو چکی ہے۔
Published: undefined
سائبر فراڈ میں کھوئی ہوئی رقم واپس ملنا عموماً ممکن نہیں ہوتا۔ سائبر مجرم رقم کو فوراً مختلف اکاؤنٹس میں منتقل کر دیتے ہیں اور اس کے بعد اسے بِٹ کوائن میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایک بار اگر پیسے بِٹ کوائن میں چلے جائیں تو انہیں واپس لانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ سرکاری ایجنسیاں جانتی ہیں کہ یہ فراڈ کیسے اور کہاں سے ہو رہا ہے لیکن بری بات یہ ہے کہ وہ نہیں جانتیں کہ اس سے لوگوں کو کیسے بچایا جائے۔ سرکاری ایجنسیاں اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صرف آگاہی اور ہوشیاری ہی آن لائن دھوکہ دہی سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔
پون دُگّل کا کہنا ہے کہ ملک کے قوانین میں بھی اس حوالے سے بہتری کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ لوگ خود محتاط رہیں اور ہر طرح کے آن لائن فراڈ سے بچنے کے لیے چوکس رہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined