جوہری فشن (nuclear fission) کی 1938 میں دریافت جلد ہی سائنسی حلقوں میں پھیل گئی اور سبھی کو یہ سمجھ میں آگیا کہ اس کو استعمال کرکے انتہائی تباہ کن ہتھیار یعنی ایٹم بم بنایا جاسکتا ہے۔ اس بات کا سبھی کو ڈر تھا کہ جرمنی کی وحشی نازی حکومت کہیں جلد ہی آیٹم بم بنانے میں کامیاب ہو کر پوری انسانیت کے لئے ایک بڑا خطرہ نہ پیدا کر دے ۔ خدشہ تھا کہ ہٹلر اس بم کو استعمال کرنے میں بالکل بھی نہیں ہچکچائے گا اور جرمنی کے خلاف جنگ جیتنا ناممکن ہو جائے گا۔
جرمنی کے آیٹم بم کا خوف خاص طور سے ان سائنس دانوں میں زیادہ تھا جو وہاں سے اپنی جانیں بچا کر دوسرے ملکوں میں پناہ لئے ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے نازی حکومت کی وحشیانہ حرکتوں کو دیکھا تھا۔
امریکا میں مہاجر سائنس داں لیو سیلارڈ اور یوجین وگنر نےآیٹم بم کے خطرہ سے آئسٹائین کو آگاہ کیا اور امریکی صدر کو ایک خط لکھا جس میں امریکا میں آیٹم بم بنانے کی تحقیقات کو خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ یورینیم کو جمع کرنا اور اینرکو فرنی اور دوسرے سائنس دانوں کی فشن سے مطالق تحقیقات کو تیز کرنے کے بعد آیٹم بم جلد بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
امریکی صدر روزویلیٹ نے فوراً ہی ایک کمیٹی تشکیل کی ، آئسٹائیں کے خط میں جن باتوں کا ذکر ہے ان پر اور سائنس دانوں کی رائے لے کر خاص طور پر یورنیم اور حال ہی میں دریافت ہوا نیا عنصر پلوٹونیم کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکے۔ اس کمیٹی نے نومبر 1939 میں روزویلیٹ کو آگاہ کیا کہ یورینیم اورپلٹونیم کی فشن کی خصوصیت کو استعمال کرکے ایک بہت ہی تباہ کن ہتھیار بنایا جا سکتا ہے اور اس کو کرنے کے لئے تحقیقات میں جلدی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں امریکا کی قیادت میں ہٹن پروجیکٹ (1942-1946)کی تشکیل کی گئی جس کی یہ ذمہ داری تھی کہ جلد از جلد ایٹم بم بنایا جائے۔ اس پروجیکٹ کے انچارج میجر جنرل لیزلی گروز تھے اور نیو کلیر سائنس داں رابرٹ اوپنہائمر کی ذمہ داری ایٹم بم کی ڈیزائن اور تجربہ کرکے تشکیل کرنا تھا۔ اس پروجیکٹ پر تقریباً 2 بلین امریکی ڈالر خرچ ہوا اور مختلف مرحلوں کو حل کرنے میں ڈیڑھ لاکھ لوگ شامل رہے، شروعاتی دور میں تحقیقات بہت ہی مدھم تھی۔
اسی بیچ انگلستان میں دو سائنس دانوں فرسک اور روڈولف پیرلز کی تحقیقات سے بہت ہی اہم چیز یہ معلوم ہوئی ک یورینیم کا ایٹم بم کے لئے کریٹکل ماس صرف 10کلو کے آس پاس ہی تھا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ بم بنانے کے لئے صرف 10-15 کلو ہی یورینم درکار ہوگا اور اس طرح کہ ہم کو بہ آسانی ہوائی جہاز سے کہیں بھی لے جاکر گرایا جا سکتا ہے۔ برطانیہ اس وقت نیو کلیر فزکس کی تحقیقات میں عالمی طور پر سب سے آگے تھا۔ ایٹم بم فوراً بنایا جائے اس سلسلے میں سرسک اور پیرلز نے چرچل کو ایک خط لکھا جس کے نتیجہ میں مونڈ کمیٹی بنائی اور بلا تاخیر کیے برطانوی ایٹم بم پروجیکٹ خفیہ طور پر شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی روس اور جاپان میں اسی طرح کے بم بنانے کی تیاری شروع ہوئی۔
انگلستان کی حکومت نے امریکی حکومت کو اپنی تحقیقاتی معلومات کو شیئر کرنے کا وعدہ کیا تاکہ ایٹم بم جلد از جلد بنایا جا سکے۔
اس زمانہ میں یہ معلوم تھا کی یورینیم کے سب سے زیادہ ذخائر کنیڈا اور افریقہ کے کانگو میں ہیں، لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یورینیم قدرتی طور پر یورینم کے ذخیروں میں صرف 0.7 فی صد ہی یو- 235 تھا زیادہ تر یو 238 جو تھا وہ بم کے لئے بیکار تھا اس لئے یورینیم کی کھانوں سے نکلے سامان سے یو 235 کا حاصل کرنا مشکل تھا کیونکہ یو 238 کی زیادہ تر خصو صیات یو 235 کی ہی جیسی تھیں۔
اسی بیچ پی یو 239 کی دریافت ہوئی اور کچھ تجربہ گاہیں اس کوشش میں لگ گئیں کہ اس کا کم از کم اتنا ذخیرہ حاصل کیا جاسکے کہ اس سے ایک الگ طرح کا ایٹم بم بھی بنایا جاسکے۔
ستمبر 1944 میں امریکا ، انگلستان اور کنیڈا میں ایک معاہدہ (کیوبیک اگریمنٹ)کے نام سے ایٹم بم بنانے اور تینوں کی مرضی سے ہی استعمال کرنے کے لئے ہوا۔ اس مشن کو جلدی پورا کرنے کی غرض سے انگلینڈ سے 5 بڑے سائنس داں امریکا گئے۔ کچھ عرصے بعد 35 اور سائنس داں برطانیہ سے امریکا اس کام میں ہاتھ بٹانے گئے۔
میری ملاقات 1982 میں پیرلز سے اکسفورڈ میں ہوئی جب تک ان کو سر کا خطاب مل چکا تھا۔ وہ اس زمانے میں اکسفورڈ یونیورسٹی کی نیو کلیر فزکس کی تجربہ گاہ سے منسلک تھے۔ ہر روز 11 بجے صبح وہ کافی کے وقت ڈیپارٹمنٹ کی کینٹین میں ضرور آتے تھے۔ چھوٹا قد، دبلا پتلا جسم ، فلٹ ہیٹ لگا کر اور پتلون میں کلپ لگا کر وہ سائیکل سے ہی آیا کرتے تھے۔
امریکا اوربر طانیہ نے یہ فیصلہ لیا کہ دنیا میں جہاں جہاں یورینیم کے ذخائر ہیں ا ن پر قبضہ کرکے سارے ذخیرہ کو حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ یورینیم کمی کی وجہ سے بم بنانے کا کام نہ رکے اور یہ اہم ذخیرہ کسی اور کے ہاتھ نہ لگے۔کانوں سے نکلا یورینیم کا ذخیرہ حاصل ہونے کے بعد سب سے مشکل مرحلہ اس کی صفائی کا تھا۔
امریکا کی کئی تجربہ گاہیں اس مشکل کام میں لگ گئیں کیونکہ اس کام میں وقت لگنے والا تھا ۔ آخر کار جولائی 1945 میں تقریباً 50 کلو یورینیم حاصل ہوپایا جس میں 85 فی صد یورینیم ئو 235 تھا جو کہ ایک ایٹم بم ’لٹل بوائے ‘ بنانے میں استعمال ہوا ۔پھر اسی بم کو ہیرو شیما پر استعمال کیا گیا۔
پلوٹونیم کو ضروری مقدار میں حاصل کرنا یورینیم کے مقابلے میں اور زیادہ مشکل کام تھا جو صرف نیو کلیر ریکٹر سے ہی حاصل ہو سکتا تھا۔لاس الاموس تجربہ گاہ جہاں پر بم ڈیزائین ہونے کا کام ہورہا تھا وہاں پر پلوٹونیم کی پہلی قسط اپریل 1944 کو پہنچی۔
رابرٹ اپین ہائمر ( جو لاس الاموس تجربہ گا ہ کے ڈائرکٹر تھے) کی قیادت میں دو طرح کے بم بنانے کا فیصلہ کافی تجربات کرنے کےبعد ہوا۔
پہلی ڈیزائن گن ٹائپ جس میں یورینیم کے دو آدھے گولے ( جن کا الگ الگ وزن کریٹکل ماس سے تھوڑا کم) شروع میں ایک دوسرے سے دور ۔ استعمال کے وقت بندوق کی گولی کی طرح ایک دوسرے کے قریب آکر گولے کو پورا کریں جس کا وزن کل ملا کر کریٹکل سے زیادہ ہوسکے۔ تو فوراً ہی چین ریکشن شروع ہوجائے گا اور ایٹم بم پھٹ کر بے تحاشہ انرجی پیدا کرے گا۔
پلوٹونیم کی کچھ خصوصیات کی وجہ سے اس کے لئے گن ٹائپ (یعنی یورینیم 235 کے بم) بم نا مناسب تھا اور اس کے لئے ایک نئے ڈیزائین پر کام شروع ہوا۔ اس طریقہ کار میں انٹگیر مادہ کو استعمال کرکے یو 239 کو اندر کریش کرکے کریٹکل ماس جلد ہی حاصل کیا جاسکتا ہے اور پھر چین ریکشن آسانی سے شروع ہوجائے گا۔ اس طریقہ کار کی خوبی یہ پائی گئی کہ یہ زیادہ مؤثر تھا۔ یہ بم ایک گولے کی شکل میں بنایا گیا جس میں سب سے باہر ایک انٹگیر مادہ اس کے اند ر پی یو 239 اور سب سے اندر ایک نیوٹران پیدا کرنے والا عنصر اس بم کا نام ’فیٹ مین ‘ رکھا گیا۔ یہی بم ناگا ساکی پر استعمال ہوا۔ اس طرح کے تین بموں کا سامان23 جولائی 1945 تک تیار ہو پایا۔ اس بم کی ڈیزائین اتنی پیچیدہ تھی کہ سبھی کو یہ شبہ تھا کہ یہ صحیح طور پر کام کرپائے گا۔ اس وجہ سے اوپنہائمر نے یہ فیصلہ کیا کہ اس بم کو ایک بار ٹسٹ کرنا ضروری ہے۔
ٹرینیٹی کے نام سے اس بم کا تجربہ 16 جولائی 1945 کو الاموگوردو پر صبح ساڑھے پانچ کیا گیا۔ اس چھوٹے بم کی قوت 20 کلو ٹن کے برابر تھی جس سے تقریباً 250 فٹ تک ساری زمین پگھل گئی اور شاک لہریں 100 میل تک محسوس ہوئیں اور مشروم بادل ساڑھے سات میل اونچائی تک گئے۔ ایٹم بم جس جگہ پھٹا وہاں پر درجہ حرارت 6000 ڈگری سلسیس یعنی سورج کی سطح کے درجہ حرارت کے برابر تھی اور یہ تجربہ کامیاب ہوا۔
اس تجربہ کو دیکھ کر اوپن ہائمر نے بعد میں بھگوت گیتا کا مشہورا شلوک یاد کیا’’ ہزاروں سورج کی چمک اور گرمی جیسے ایکدم اس طاقت اور چیز میں اکٹھا ہوگئی ہوں اور میں موت ہوں اور ساری دنیا کو تباہ کر سکتا ہوں ‘‘۔
Published: 09 Sep 2018, 9:12 PM IST
امریکی ہوائی فوج کے بوئنگ بی 29 جہاز کو ضروری تبدیلیوں کے بعد تیار کیا گیا کہ 17 فٹ لمبا ’تھِن مین ‘ یو 235 بم اور 5 فٹ موٹا ’فیٹ مین ‘ پلوٹونیم بم آسانی سے لے جاکر گرا سکیں۔ دونوں بموں کے مختلف حصہ ہوائی اور پانی کے جہاز کے ذریعہ جاپان کے پاس ٹینین جزیرہ پر 26 جولائی 1675 کو پہنچ گئے۔
جاپان کے کوبورا، ہیروشیما اور کیوٹو سمیت چار شہروں پر بم گرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان شہروں کو اس لئے بھی چنا گیا کیونکہ ان شہروں پر عام بمباری نہیں کی گئی تھی تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ایٹم بم سے کتنی تباہی ہوتی ہے ۔ کیوٹو کا نام اس فہرست سے اس کی تاریخی اور مذہبی خصوصیت کی وجہ سے نکال کر ناگا ساکی کا نام جوڑا گیا۔
16 اگست 1945 کو امریکی جہاز یو 235 بم لٹل بوائے کو لے کر اڑا تاکہ ہیرو شیما اور اگر موسم خراب ہو تو کوبورا یا ناگا ساکی پر بم گرائے۔یہ چھوٹا بم جس میں تقریباً 13 کلو ٹن کے برابر تباہی کا سامان تھا اس بم نے 12 کلو میڑ اسکوائر کا علاقہ پوری طرح تباہ کردیا۔ 70 سے 80 ہزار لوگ تو فوراً ہی مرگئے اور تقریباً 70 ہزار افراد بری طرح زخمی ہوئے۔
9 اگست کو بی-29 جہاز دوسرے بم فیٹ مین کو لے کر اڑا کہ کوبورا پر گرائے ، لیکن موسم خراب اور بادلوں کی وجہ سے شہر کے تین چکر لگانے کے بعد اس ڈر سے کہ جہاز کا ایندھن ختم نہ ہوجائے ، بم کو ناگا ساکی پر گردیا۔اس 21 کلو ٹن بم کی تباہ کاری سے 40 ہزار لوگ فوراً ہی مرے اور 60 ہزار لوگ بری طرح زخمی ہوئے۔ اگلے تین اور بم 19 اگست تک تیار ہونا تھے۔
15 اگست کو اسٹالن نے جاپان کے خلاف جنگ کااعلان کیا۔ اس کے فوراً بعد جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے اور دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔ ہتھیار ڈالنے کی خاص وجہ صرف ایٹمی بم کی تباہی نہیں بلکہ یہ بھی ڈر تھا کہ اگر روسی فوجیں جاپان پر قبضہ کریں گیں تو بادشاہت ختم ہوجائے گی جبکہ امریکی فوجیں بادشاہت کو ضرور برقرار رکھیں گی۔
ایٹم بم کی تباہی سن کر دنیا بھر کے عوام لرز اٹھے اور اس کے استعمال کے خلاف دنیا بھر میں زبردست احتجاج ہوئے خاص طور سائنس داں اور دانشوروں نے امریکا کی اس وحشیانہ حرکت کی مذمت کی اور ایٹمی بم کی دوڑ پر روک لگانے کی ضرورت پر زور ددیا۔ امریکا کی لاس الماس تجربہ گاہ ( جہاں پر بم بم بنایا گیا) سے زیادہ تر بڑے سائنس داں نوکری چھوڑ چھوڑ کر یونیورسیٹیوں میں چلے گئے۔
دنیا بھر کے امن پسند عوام کے دباؤ میں ایٹمی بموں کے تعداد میں مختلف معاہدوں کے بعد کمی تو ضرور آئی ہے لیکن اب بھی ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پوری دنیا اور اس میں ہر طرح کی زندگی کو کئی بار ختم کیا جاسکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً 14185 ایٹم بم تیار شدہ حالت میں ہیں ، روس کے پاس 6600 ، امریکا کے پاس 6450 ، فرانس کے پاس 300، چین کے پاس 208، انگلستان کے پاس 215، پاکستان کے پاس 130 ، ہندوستان کے پاس 120 ، اسرائیل کے پاس 80 اور کوریا کے پاس شائد 7یا 8 بم موجود ہیں۔
اگر پاکستان میں بم پاگلوں کے ہاتھ لگ جائے تو وہ ممبئی یا دہلی پر بم گرانے میں 10 منٹ سے کم وقت لگائیں گے۔ اس دیوانگی کی سزا میں ہم شائد پورے پاکستان کو تباہ کرسکتے ہیں لیکن ہم خود بھی اس تباہی شے نہیں بچ سکتے۔ اس لئے ہم سب کی ضرورت یہ ہے کہ اگر نسل آدم کو بچانا ہے تو دنیا میں ہر جگہ سے ایٹم بم کو ختم کرنا ہوگا۔
ہرسال 6 اگست کو ہیرو شیما میں میئر کی قیادت میں بہت سارے لوگ تمام دنیا سے امن اور ایٹمی بم کے استعمال کے خلاف اپیل کرتے ہیں۔
Published: 09 Sep 2018, 9:12 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Sep 2018, 9:12 PM IST
تصویر: پریس ریلیز