340 قبل مسیح بھی قدیم یونانی فلسفی ارسطو (384-322 B.C.)نے دو دلائل پیش کیئ تھے کہ ہماری زمین ایک پلیٹ کے بجائے ایک گولا ہے۔ اس کا ماننا تھا تھا کہ چاند گرہن چاند اور سورج کے درمیان زمین کے آنے سے ہوتا ہے اور زمین کا سایہ چاند پر ہمیشہ گول ہی ہوتا ہے اور اگر زمین ایک گولے کے بجائے فلیٹ ہوتی تو یہ سایہ ہمیشہ گول نہیں ہوتا۔
زمین کے گول ہونے کی دوسری دلیل یونانیوں کو اپنے لمبے سفر سے معلوم ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ دیکھا کہ جنوب میں جاکر دیکھنے پر قطب تارہ تھوڑا نیچے دکھائی دیتا ہے بمقابلہ شمال کے۔
شمال اور جنوب سے قطب تارہ کی دکھائی دینے والے معمولی فرق سے ارسطو نے زمین کے گولے کی موٹائی کا بھی اندازہ لگایا تگا جو موجودہ سرکمفرنس (Circumference) کے مقابلے میں دو گنا ہے۔
زمین تربوز کی طرح کا ایک گولہ ہے یہ بات یونانیوں کو اپنی سمندری جہاز رانی کے تجربہ سے بھی معلوم تھی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ بندرگاہ کی طرف آتے ہوئے جہاز کا پہلے اوپری حصہ دکھائی دیتا ہے اور اس کے کچھ دیر کے بعد ہی دھیمے دھیمے جہاز کا باقی نیچے کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ زمین کے گول ہونے کی یہ دلیل اب بھی اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔
اس وقت کی ساری سمجھ کا نچوڑ پہلی صدی کے مشہور سائنسداں پٹولمی (Ptolemy 100-170 AD)نے کائنات کے ایک خاکہ کی شکل میں پیش کی۔ پٹولمی ساری عمر اسکندری میں رہا۔ بہت ساری سائنسی مقولوں کے علاوہ اس نے تین مشہور کتابیں بھی لکھیں ان میں ایکAlmagest دوسری جغرافیہ اور تیسری علم نجوم پر۔ اس نے روشنی کی بہت ساری خصوصیات بھی معلوم کی۔
ٹولمی کے کائنات کے خاکہ کے مطابق ہماری دنیا کائنات کا محور ہے اس کے باہر آٹھ گولے ہیں ان میں چاند، پانچ سیارے، سورج اور ستارے زمین کے چاروں طرف گھومتے ہیں۔اس وقت صرف 5 سیارے ہی معلوم تھے یہ سیارے عطارد Mercury، زہرہ Venus ، مریخ Mars ، مشتری (Jupiter) اور زحل(Saturn) دریافت ہوچکے تھے۔ سیاروں کے دکھائی دینے والے مشکل چکر کو سمجھنے کے لئے یہ سوچا گیا کہ وہ ان بڑے گولے پر اپنے چھوٹے گولوں میں گھومتے ہیں۔ ستارے سب سے باہری گولے میں اور سب آپس میں ایک مستقل دوری پر منجمد ہوکر بڑے گولے میں زمین کے چاروں طرف گھومتے ہیں۔ یہ سمجھ تھی کہ ستاروں کے اس آٹھویں گولے کے باہر کی جگہ کو انسان نہیں دیکھ سکتا اور وہاں پر جنت اور دوزخ کے لئے بہت جگہ ہے۔
ٹولمی کا کائنات کا یہ خاکہ اس زمانے کی معلومات کے لحاظ سے مختلف پیشین گوئیوں کے پیمانہ پر کامیاب تھا لیکن خود اس کو اس کی خامیوں کا اندازہ تھا۔ مثلاً اس کو یہ معلوم تھا کہ اکثر کچھ سیاروں کی جگہوں کو سمجھنے کے لئے اس کو یہ فرض کرنا پڑتا تھا کہ ہمارا چاند کبھی کبھی زمین سے آدھی دوری پر آجاتا ہے۔ لیکن پھر تو ایسا ہونا چاہیے کہ کبھی کبھی چاند ہم کو دوگنا بڑا دکھنا چاہیے جبکہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔
کائنات کی یہ تصویر زیادہ تر لوگ صحیح مانتے تھے کیونکہ یہ عیسائی مذہب کی کتابوں میں بھی بیان تھی کہ ہماری دنیا کائنات کا محور ہے۔
Published: undefined
نکولس کوپرنکس (1473-1543)نے (جو ایک مشہور پولش ریاضی اور فلکیاتی سائنسداں تھا) کائنات کا ایک سہل اور انقلابی خاکہ پیش کیا۔ اس کے مطابق سورج ہمارے نظام شمسی کا محور ہے جو اس وقت کی مذہبی سمجھ کے خلاف تھا۔ اور اس وقت کے عیسائی مذہبی رہنماؤں کے عتاب سے ڈر کر اپنی تحقیقات کو 1514 میں اپنے قریبی دوستوں کو ایک دستی کتاب ذریعہ آگاہ کیا۔1532 میں اس نے اپنی کتاب (کائنات میں گھومنے والی چیزیں) میں اپنی فلکیاتی تحقیقات کو تفصیل سے لکھا لیکن وہ کتاب 1543 میں (وفات سے صرف 2 مہینہ پہلے) چھپی اور فوراً ہی اس کی سخت مخالفت شروع ہوگئی اور آخر 1616 میں چرچ نے اس کو پڑھنا ، چھاپنا اور بیان کرنا عیسائی مذہب کی بے حرمتی قرار دیدیا گیا اور اس کے ماننے والوں کے لئے جہنم جانا یقینی قرار دے دیا گیا۔
کوپرنکس کا فلکیاتی خاکہ کہ (نطام شمسی کا محور زمین نہیں بلکہ سورج ہے اور سارے سیارے سورج کے گرد مختلف گولائی سے چکر لگا رہے ہیں) تقریباً 100 سال تک چرچ کی مخالفت کی وجہ سے کتابوں میں دفن رہا۔
جوہنس کیپلر (1571-1630)جرمنی کے جوہنس کیپلر (1571-1630)اور اٹلی کے مشہور سائنسداں گیلیلیو (1564-1642)نے چرچ کی مخالفت کے باوجود ہمت کرکے کوپرنکس کے خاکہ کی حمایت اور اس کی فلکیاتی تحقیقات کی سچائی کے دفاع میں کھڑے ہوئے۔ حالانکہ کیپلر کو یہ معلوم تھا کہ سیاروں کا سورج کے گرد راستہ گولائی سے ہت کے ہے۔
ارسطو اور ٹولمی کے خاکہ کا اصل خاتمہ ہوا جب گیلیلیو نے پہلی بار فلکیاتی تحقیقات کے لئے دوربین کا استعمال 1609 میں کیا۔ دوربین کی ایجاد جرمنی کے چشمہ بنانے والوں نے کی اور وہ وہاں کے میلوں میں بچوں کے کھلونہ کی شکل میں بکنا شروع ہوئی، گیلیلیو سے پہلے تمام فلکیاتی تحقیقات کا کام بغیر دوربین کے صرف آنکھوں سے کیا گیا۔
گیلیلیو نے جب دوربین کی مدد سے چوپیٹر کو غور سے دیکھا تو یہ معلوم ہوا کہ جس طرح چاند ہماری زمین کے چاروں طرف چکر لگاتا ہے اسی طرح کئی سیارے چوپیٹر کے چاروں طرف چکر لگا رہے ہیں۔ ہم کو اب یہ معلوم ہے کہ کم ازکم 67 سیارے چوپیٹر کے گرد چکر لگا رہے ہیں ۔ 1610 تک گیلیلیو چار بڑے سیاروں(Io, Europa, Ganymede and Calisto) کو دوربین سے معلوم کرچکا تھا۔ یہ دریافت اس وقت کے لحاظ سے بہت اہم تھی کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ کائنات میں ضروری نہیں کہ ہر چیز زمین کے گرد چکر لاگئے۔ اس دریافت کے بعد گیلیلیو کو ٹولمی کے خاکہ کی غلطی کا یقین ہوگیا اور باوجود کچھ خامیوں کے کوپرنکس کے خاکہ پر اعتماد بڑھا کہ سب سیارے سورج کے گرد چکر لگارہے ہیں۔ اسی زمانے میں کیپلر اور ان کے استاد ٹائکو برا ہے(1546-1601AD) کہ نہایت احتیاط سے کیے گئے فلکیاتی مشاہدہ آچکے تھے۔ سیاروں کے چکر لگانے کے تمام مشاہدوں کو دیکھنے کے بعد ان کا نچوڑ تین مشہور قوانین کی شکل میں پیش کیا۔ ان قوانین میں کیپلر نے کوپرنکس کے فلکیاتی خاکے میں ایک ایک اہم تبدیلی کی۔ اس نے یہ دیکھا کہ سیارے ایک گول چکر کے بجائے بیزاوی (Elliptical) شکل کے دائرہ میں سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ حالانکہ اس کو یہ بات ناپسند تھی کہ گولوں کے بجائے بیزاوی شکل کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت یہ نہیں معلوم تھا کہ سیارے آخر کیوں ، کس قوت کی وجہ سے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں، کیپلر اس بات سے متفق نہیں تھا کہ مقناطیسی قوت سیاروں کو چکر لگانے پر مجبور کرتی ہے۔
سیارے کیوں چکر لگا رہے ہیں اس کے لئے ابھی نیوٹن کے آنے کا انتظار کرنا پڑا۔
اس کا ذکر کچھ تفصیل سے اگلی قسط میں کیا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined