10 اپریل کو یہ اخباروں میں اعلان ہوا کہ فلکیاتی سائنسدانوں نے وہ کامیابی حاصل کرلی جو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ناممکن سمجھی جاتی تھی وہ دوربینوں کی مدد سے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوئے۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
یہ بلیک ہول ہم سے تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ روشنی سال (ایک روشنی سال وہ دوری ہے جو روشنی ایک سال میں چلتی ہے) دور ایک کہکشاں (جس کا نام ایم 87 ہے) کے سینٹر پر ہے۔ ان تصویروں سے یہ معلوم ہوا کہ یہ بلیک ہول سورج سےچھ سو پچاس کروڑ گنا بھاری ہے ہماری زمین سے 30 لاکھ گنا بڑا یعنی پورے نظام شمسی سے بڑا۔ سائنسدانوں کی زبان میں یہ تقریباً ایک انتہا سے زیادہ بڑا دیو جیسا ہے۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
یہ بلیک ہول ہم سے اتنا دور ہے کہ اس کی کوئی معنی خیز تصویر کسی ایک دور بین سے لینا ممکن نہیں تھا اس لئے دنیا میں مختلف جگہوں پر لگی ہوئی آٹھ دور بینوں نے مل کر اس کی تصویر کھینچی۔ دوربینوں کے اس گروپ کا نام ایونٹ ہورائزن (Event Horizon) دور بین ہے۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
پروفیسر ہینکو فالکے (Netherland) نے یہ تجربہ تجویز کیا تھا کہ اس بلیک ہول کی تصویر لی جاسکتی ہے۔ یہ بلیک ہول اتنا بڑا ہے کہ اس کو انہوں نے بلیک ہول کا ہیوی ویٹ چیمپئن کہا اور ان کے خیال میں یہ سب سے بڑے بلیک ہول میں سے ایک ہے۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
تصویر یہ دکھاتی ہے کہ ایک گول کالی ڈسک کے چاروں طرف بہت ہی زیادہ روشن گولا ہے یہ گولا اتنا زیادہ روشن اور چمکدار ہے کہ اس کی روشنی کروڑوں ستاروں کی ساری روشنی سے زیادہ ہے۔ آس پاس بلیک ہول کی گرویوٹیشنل کشش اس قدر زیادہ ہے کہ آس پاس کا مادہ اور گیسیس نہایت تیز رفتاری سے اس کی طرف کھینچ کر اس میں شامل ہوتی جارہی ہیں۔ روشنی کا حالہ ان گیسوں کے تیز رفتاری سے چل کر گرم ہونے کی وجہ سے بنا ہے۔ اسی روشن حالہ کی وجہ سے سائنسداں اس کی تصویر لینے میں کامیاب ہوئے۔ بیچ میں کالے گولے کی حد وہ جگہ ہے جہاں پر سارہ مادہ اور گیسیس بلیک ہول میں گر کر غائب ہو رہی ہیں اور جب وہ بلیک ہول کے اندر چلتی جاتی ہیں تو پھربلیک ہول کی گرویوٹیشنل کشش کی زیادتی کی وجہ سے وہاں سے روشنی کی کوئی کرن بھی باہر نہیں آسکتی۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
ڈاکٹر زیری یونیسی (جو تصویر لینے والی سائنسدانوں کی ٹیم کے ممبر ہیں) نے اس تصویر کو دیکھ کر یہ کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئنسٹائین کی گرویوٹیشن تھیوری کو استعمال کر کے جو قیاس اور خاکہ ہم لوگوں کے ذہن میں تھا وہ صحیح تھا اور آئنسٹائینپھر ایک بڑے امتحان میں کامیاب ہوئے۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
حالانکہ بلیک ہول کی کائنات میں موجودگی سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ کائنات میں گرویوٹیشنل قوت کی وجہ سے سائنس کی سمجھ کا ایک سخت امتحان ہے۔ ان تصویروں کی مدد سے سائنسدانوں کی دلچسپی یہ بھی ہوگی کہ کیا ہم کوئی نئی چونکا دینے والی بات سیکھیں گے۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
پروفیسر فالکے کو اس تجربہ کا خیال 1993 میں آیا جب وہ ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے پڑھ رہے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بلیک ہولکے نزدیک بہت ہی قوت ور ریڈیو لہریں پیدا ہوں گی جن کو ہم اپنی زمین پر لگی دور بینوں کی مدد سے سیکھ سکیں گیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی پڑھا تھا کہ اپنی لا محدود گرویوٹیشنل قوت کی وجہ سے بلیک ہول اپنے سائز سے ڈھائی گنا زیادہ بڑا دکھائی دے گا۔ ان دونوں خصوصیات کو ذہن میں رکھ کر بلیک ہول کو دیکھ پانے کا کام ممکن ہو سکتا ہے۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
پروفیسر فالکے 20 سال کی پر زور کوشش کرنے کےبعد یورپ کی مختلف حکومتوں نے بلیک ہول کی تلاش کے لئے تقریباً 4 کروڑ پاؤنڈ کی گرانٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پروفیسر شیفرڈ (ہارورڈ، امریکا) سائنسدانوں نے ایک گروپ کی قیادت میں آٹھ دور بینوں کو ملا کر ایسی دور بین بنا لی جس کی وجہ سے تقریباً ہماری دنیا کےسائز کی ایک بڑی دور بین جیسا کام کرے۔ ان میں کی سبھی دور بین بہت ہی عجیب جگہوں پر آبادی سے دور ہیں تاکہ بغیر کسی شور شرابے کے تصویر لینے کا کام ہوسکے۔ مثلاً ہوائی جینزے کے خاموش آتش فشاں پہاڑ، میکسکو، اریزونا کے پہاڑ پر، اسپین کے نیواڈا، چلی کے ریگستان اور قطب جنوبی پر لگی دور بینیں اس گروپ میں شامل رہیں۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
دنیا بھر کے دو سو سے زیادہ فلکیات سے مطالق ماہر سائنسدانوں نے دس روز تک ایم 87 کہکشاں سے آنے والی روشنی اور ریڈیو لہروں کو ریکارڈ کیا۔ اس عمل میں جو اطلاع ریکارڈ ہوئی اس کا تجزیہ امریکا میں باسٹن اور جرمنی کے بان شہر کی تجربہ گاہوں میں کیا گیا۔ امریکا کی ایم آئی ٹی کی ایک نوجوان پی ایچ ڈی کی طالبہ کیٹ بومان نے ایک ایسا کمپوٹر پروگرام بنایا جس کی مدد سے اس ساری اطلاع کا تجربہ کرکے ہی آخرکار وہ تصویر بن پائی جو ہم اب دیکھ پا رہے ہیں۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
اس کامیابی کے بعد سائنسدانوں کا یہی گروپ اب ہماری کہکشاں کے محور پر جو بلیک ہول ہونے کا قیاس ہے اس کی تصویر لینے کی جدوجہد میں لگے ہیں۔ حالانکہ ہماری کہکشاں کا سینٹر صرف پچپن روشنی سال دور ہے لیکن اس کے چاروں طرف کا ہالہ چھوٹا اور کم روشن ہے۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
اس بڑی کامیابی نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ کائنات کو سمجھنے کے لئے آئنسٹائین کی گرویوٹیشن کی تھیوری ہی صحیح راستہ ہے اور کائنات میں ہونے والی چیزوں کو صرف سائنس کی مدد سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 May 2019, 7:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز