شمالی ستارہ (Pole Star) کے بارے میں ہندوستان کی ایک بہت پرانی کہانی مشہور ہے۔ اُٹنپدا (Uttanpada) نام کے ایک بادشاہ کی صرف دو بیویاں تھیں۔ سروچی اس کی پسندیدہ، مغرور، زیادہ خوبصورت تھی اور دوسری جس کو بادشاہ زیادہ تر نظر انداز کرتا تھا اس کا نام سنیتی تھا۔ وہ زیادہ نرم مزاج اور اچھے دل کی مالک تھی۔ دونوں رانیوں کے ایک ایک لڑکا تھا۔ ان کے نام دھرو اور اٹاما تھے ۔ ایک دن اٹاما اپنے باپ کی گود میں بیٹھا کھیل رہا تھا تو دھرو بھی باپ کے پاس گیا کہ میں بھی گود میں بیٹھ کر کھیلوں۔ لیکن سروچی نے اس کو جھڑک کر بھگا دیا۔ وہ دل شکستہ وہاں سے چلا آیا اور ایسی جگہ کی تلاش میں لگ گیا جہاں وہ سکون سے بیٹھ سکے اور اس کو کوئی بھی نہ ہٹا سکے۔ گیانی لوگوں نے اس کو رائے دی کہ وشنو دیوتا کی پوجا کرو وہی شاید خوش ہو کر تمھاری اس خواہش کو پورا کر دیں۔ دھرو نے وشنو کی بہت پوجا کی اور وہ خوش ہو کر اس کے پاس آئے اور یہ بولے تم کو کیا چاہیے۔ دھرو نے کہا اے بھگوان آپ مجھ کو ایسی جگہ پہنچا دیجیے جہاں سے مجھ کو کوئی نہ ہلا سکے۔ یہ سنتے ہی وشنو بھگوان نے دھرو کو شمالی ستارہ پر بٹھا دیا تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے سکون سے ایک ہی جگہ پر رہے۔ اسی وجہ سے اس ستارہ کا نام دھرو تارا ہے۔
اور ستاروں یا سیاروں کے بر عکس دھرو تارا ایک ہی سمت (شمال) رہتا ہے نہ طلوع ہوتا ہے نہ غروب ہوتا ہے۔ اس کی یہ خاصیت پرانے زمانہ سے اب تک جہاز رانی کے لیے بہت ہی کار آمد ہے کیونکہ آپ کہیں بھی ہوں اس تارے کی مدد سے آپ کو شمال کی سمت معلوم ہو جائے گی۔ موجودہ دھرو کو شمالی ستارہ کے سکون پر اعتبار نہیں ہوگا کہ وہ پورے طور سے سکون کی جگہ نہیں ہے۔
ہماری زمین سورج کے گرد گھومنے کے علاوہ اپنی قطب یعنی دھری پر بھی گھومتی ہے اور تقریباً 24 گھنٹہ میں ایک چکر پورا کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے دن اور رات ہوتے ہیں۔ اس دھری پر گھومنے کی وجہ سے آسمان میں دِکھنے والے ستارے 24 گھنٹہ میں زمین سے دیکھنے میں ایک پورا چکر لگا لیتے ہیں۔ ہم کو ایسا لگتا ہے کہ ستارے شام کو مشرق (East) سے نکلتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ مغرب (West) کی طرف ایک گولے میں چکر لگاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اگر ہم گھومتے ہوئے لٹو پر بیٹھ جائیں تو کمرے کی ہر چیز ہم کو گولائی میں گھومتی ہوئی دکھائی دے گی۔ کیونکہ شمالی ستارہ یعنی دھرو تارا تقریباً ہماری زمین کی دھری کی سمت ہے اس لیے اور تاروں کی بنسبت وہ رات گزرنے کے ساتھ بھی ایک ہی سمت رہتا ہے اور لگتا ہے کہ وہ وقت کے ساتھ بالکل بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا ہے۔ لیکن یہ بات اسی وقت تک صحیح ہوگی جب تک ہماری زمین کی دھری خود اپنی سمت نہ بدلے۔
کائناتی تحقیقات سے یہ سچ معلوم ہوا کہ حقیقت میں ہماری زمین کی دھری خود ایک Cone کی سطح پر چکر لگا رہی ہے اور یہ ایک پورا چکر 2600 سال میں پورا کرتی ہے۔ یونکہ یہ وقت اتنا زیادہ ہے کہ انسان کی چند سو سالوں کی تاریخ میں دھرو تارا ہم کو ایک ہی سمت بغیر بدلے ہوئے شمال کی طرف دکھائی دے رہا ہے۔
جیسے جیسے ہماری زمین کی دھری اپنا چکر لگا رہی ہے شمالی ستارہ دنیا کے شمال سے ہٹتا جائے گا۔ 2700 قبل مسیح میں Thuban ستارہ شمال کی سمت تھا اور 1400 مسیح میں Vega شمال کی سمت ہوگا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ شمالی ستارہ حقیقت میں مستقل سکون کی جگہ نہیں ہے۔
شمالی ستارہ ہماری زمین سے اتنا دور ہے کہ وہاں سے روشنی ہم تک پہنچنے میں 433.8 سال لگتے ہیں۔ اس ستارہ کا نام Polaris ہے اور Ursa Minor نکشتر کا حصہ ہے اور شمال میں ہونے کی وجہ سے اس کا نام شمالی ستارہ 18ویں صدی میں پڑا۔ شمال کی طرف سب سے زیادہ چمک دار ستارہ ہے۔ سورج کے مقابلہ میں تقریباً ساڑھے پانچ گنا بڑا ہے۔ تحقیقات سے ایک دلچسپ نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ جب Ptolenry نے اس کو دیکھا تھا اس کے مقابلہ میں اب یہ ڈھائی گنا زیادہ چمک دار ہے۔ شیکسپیئر نے اپنے ڈرامہ جولیس سیزر میں 1599 میں اس کا ذکر اس طرح کیا کہ ’’میں ایسا مستقل مزاج اور اٹل ہوں جیسا کہ شمالی ستارہ۔‘‘ شیکسپیئر کے زمانے میں یہ کہاں معلوم تھا کہ ہماری زمین کی دھری خود ہی گھوم رہی ہے اور اس کی وجہ سے شمالی ستارہ بھی اپنی جگہ نہیں ٹھہر پائے گا۔
لیکن صرف دھری کا گھومنا ہی اصل مسئلہ نہیں ہے، ہماری اپنی کہکشاں کے سارے ستارے گھومتے ہیں اور اسی لیے شمالی ستارا بھی گھوم رہا ہے۔
ہماری کہکشاں ایک ڈسک ہے جس کے بیچ میں ابھار ہے اور جس میں تقریباً 10 ہزار کروڑ (100 بلین) ستارے ہیں۔ کہکشاں اپنی دھری پر بھی گھوم رہی ہے اور وہ ایک چکر 20 کروڑ سال میں پورا کرتی ہے۔
سائنسداں ہبل کے مشاہدوں سے یہ سچ سامنے آیا کہ ساری کہکشائیں بھی ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں تو سچ یہ ہے کہ دھرو کو اصلی سکون کی اٹل جگہ نہیں ملی۔ سائنسی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ حرکت ہی قدرت کا قانون ہے اور کوئی بھی چیز ٹھہر نہیں سکتی۔
کائناتی پیمانہ پر یہ سچ سامنے آیا ہے کہ ہماری زمین اور باقی سیارے، سورج، ہماری کہکشاں اور ساری کہکشائیں و سارے ستارے مستقل حرکت میں ہیں۔ اب ذرا ہم اپنے آس پاس کی چیزوں میں حرکت کو دیکھیں۔ سنگم پر دور سے جا کر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ دریا کا پانی سکون سے رکا ہوا ہے لیکن پاس جا کر ہم کو دکھائی دیتا ہے کہ پانی خاصی تیز رفتار سے چل رہا ہے۔
جس وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ ہوا رکی ہوئی ہے اس وقت بھی ہوا کے Molecules اوسطاً 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہے ہوتے ہیں اور ان کی اسی حرکت سے درجہ حرارت طے ہوتا ہے۔ یعنی کسی بھی چیز کا درجہ حرارت اصل میں اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس کے ائٹم اور مالیکیول کس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ Crystals اور ٹھوس چیزوں میں ائٹم اور مالیکیول اپنی جگہ رہ کر حرکت (Vibrate) کرتے ہیں۔ ٹھوس میں الیکٹران ائٹم سے الگ ہو کر گھومتے رہتے ہیں اور ان کی رفتار دھات کے درجہ حرارت پر منحصر ہوتی ہے۔ یہی Free مالیکیولس الیکٹرانک تاروں میں بجلی کی کرنٹ کہلاتے ہیں۔ بہتی ہوئی کرنٹ کے الیکٹران کی رفتار کو Drift Velocity کہتے ہیں اور یہ اوسط 1mm/sec ہوتی ہے۔
ہر ائتم میں باہر کی طرف تقریباً ہمارے نظام شمسی کی طرح الیکٹران چکر لگا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن ائٹم میں صرف ایک الیکٹران باہر ایک گولائی میں چکر لگا رہا ہے۔ اس الیکٹران کی رفتار تقریباً 2200 Km/sec ہے۔ اس رفتار سے الیکٹران زمین کا ایک چکر صرف 18 سیکنڈ میں پورا کر لے گا۔ ہم سارے جاندار اور بے جان چیزیں اسی طرح کے ایٹم اور Molecules سے بنی ہیں جن میں الیکٹران تیز رفتاری سے چکر لگا رہا ہے۔ ہر ائٹم کے بیچ کا حصہ Nucleus ہے جہاں پر ایٹم کا تقریباً سارا وزن ہوتا ہے اور دو طرح کے Particles ہوتے ہیں جن کا نام پروٹان اور نیوٹران ہے۔ وہ بھی سکون سے نہیں ہیں بلکہ مستقل چکر لگاتے رہتے ہیں۔
ارسطو سے لے کر گیلیلیو، نیوٹن اور پھر آئنسٹائن مختلف طرح کی حرکت کو سمجھنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اس لیے اس بے قرار کائنات میں سکون کی تلاش بے کار ہے۔ حرکت ہی قدرت کا قانون اور سچائی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز