قوم Viking کے لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ دیوتاؤں کے دو وفادار بھیڑئیے Skoll اور Hati ہیں جو سورج اور چاند کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور جب یہ کسی ایک کو پکڑ لیتے ہیں تو سورج یا چاند گر ہن لگتا ہے۔جب ایسا ہو تو زمین پر لوگوں کو خوب شور اور اودھم مچانا پڑتا ہے تاکہ یہ دونوں بھیڑئیے ڈر کر چاند یا سورج کو چھوڑ دیں اور گر ہن ختم ہوجائے۔ اس طرح کی اور اس سے ملتی جلتی کہانیاں سب ہی پرانی تہذیبوں میں تھیں ۔ سمجھ یہ تھی کہ انسانوں کے برے کا موں کی وجہ سے سورج اور چاند گرہن دیوتاؤں کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد لوگوں کو یہ ضرور دکھائی دینے لگا ہوگا کہ چاہے شور مچاؤ یا نہ مچاؤ، پوجا پاٹھ کرو یا نہ کرو، سورج اور چاند کچھ ہی وقت کے بعد گرہن سے نکل آتے ہیں۔ یہ بھی احساس ہوا ہوگا کہ سورج اور چاند گرہن باقاعدگی سے کچھ خاص دنوں کے بعد ہی ہوتے ہیں ۔ بہت عرصے تک یہ دیکھنے کے بعد ہی پرانے زمانے میں Babylon کے لوگ ان گرہنوں کی صحیح پیشن گوئی کر پائے۔ چاند گرہن کی پیشن گوئی زیادہ آسان تھی کیونکہ سورج گرہن کسی بھی وقت میں صرف 30 میل چوڑی پٹی میں دکھائی دیتا ہے۔ کچھ سمجھ دار لوگوں کو یہ بھی احساس ہوا ہوگا کہ یہ گرہن دیوتاؤں کے موڈ یا بے رخی پر نہیں بلکہ کائناتی قوانین کے تحت ہوتے ہیں اور ان کی پیشن گوئی کی جاسکتی ہے۔
باوجود کچھ کامیابیوں کے پرانے زمانے میں لوگوں کے لئے بہت سارے ہونے والے قدرتی واقعات کی پیشن گوئی تقریباً نا ممکن تھی مثلاً آتش فشاں، زلزلہ اور قحط وغیرہ۔ لوگ اس طرح سوچتے تھے کہ اس طرح کی قدرتی calamities (آفات) کچھ خاص دیوی دیوتاؤں کی انسانوں کی غلط حرکتوں سے ناراضگی کا اظہار ہے۔ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر حکمرانی کر نے کے طرح طرح کے دیوتاؤں کو ایجاد کیا گیا۔ کیونکہ قدرت میں ہونے والے واقعات کی وجہ نا معلوم تھی اس لئے ہر چیز کے لئے انسان ان دیوتاؤں کے رحم و کرم پر تھا۔ اس سمجھ میں تبدیلی کی شروعات تقریباً 2600 سال پہلے Miletus کے رہنے والے (Thales (624-546BC نے کی۔ اس کے بعد ہی وہ لمبی انسانی جدوجہد شروع ہوئی کہ قدرتی واقعات کچھ قوانین کے تحت ہی ہوتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ہم اس کو سمجھ سکیں اور چھپے ہوئے رازوں کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔
انسانی زندگی اور تہذیب کی وقت کی دھار ا کچھ ایسی ہے ۔ ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کرنے کے بعد اس زمین پر انسان اس شکل میں تقریباً 200000BC (دو لاکھ سال قبل مسیح) افریقہ میں وجود میں آیا۔جب انسان نے کھیتی باڑی ایجاد کی تو7000BC (9 ہزار سال قبل مسیح)زبان کو بولنے اور لکھنے کے لئے بنایا ۔ تہذیب کے ارتقاء میں یونان کی پرانی تہذیب کی کچھ دستاویز یں تقریباً 900BC کی دستیاب ہیں لیکن کئی سو سال بعد ہی انسانی تہذیب کاClassical Period شروع ہوا۔
بقول ارسطو (500BC (384-322 BC سے پہلے Thales نے یہ سمجھ پیش کی کہ دنیا میں ہونے والی قدرتی چیزوں کو سمجھا جا سکتا ہے اور صرف چند اصولوں کو معلوم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ دیوی دیوتاؤں کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔
یہ کہانی مشہور ہے کہ 585BC کے سورج گرہن کی اس نے پیشن گوئی کی تھی ۔ Ionia شہر میں اس کا گھر اس وقت کے دانشوروں کی پسنددیدہ جگہ تھا۔ Ionia کے دانشوروں کی شہرت اور اثر ترکی اور اٹلی تک جا پہنچی تھی۔ ان دانشوروں کی خاص توجہ قدرت اور کائنات کے اصولوں کو معلوم کرنا تھا۔ ان دانشوروں کی یہ کوشش انسانی تہذیب کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کوشش کے بعد لوگوں میں یہ سمجھ پیدا ہوئی کہ بغیر دیوی دیوتاؤں کے کائنات میں ہونے والے واقعات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس یہ کہ Ionia کےدانشوروں کی حیرت انگیز کامیابیاں اگلی چند صدیوں تک بھلا دی گئیں۔ قدرت کا وہ قانون جو ہم ابھی تک پڑھتے اور استعمال کر تے ہیں وہ بھی ایک Ionia کے رہنے والے مشہور پتھا گورس (Pythagoras (580BC-490BC کے نام سے جڑا ہے۔
Published: 24 Dec 2017, 5:03 PM IST
اسی نے Pythagoras Theorem کے علاوہ یہ بھی معلوم کیا کہ موسیقی پیدا کر نےوالے باجوں میں تا ر کی لمبائی کی موسیقی کی مختلف ترنگوں سے سیدھی نسبت ہوتی ہے۔ اس زمانے کا سب سے مشہور سائنسداں (Archimedes (287BC-212BC تھا جس کے بتائے ہوئے قوانین کا استعمال ہم اب بھی کر تے ہیں۔ اس کے نام سے یہ کہانی مشہور ہے کہ ’’اگر تم مجھ کو زمین کے باہر کوئی جگہ پیر ٹکانے کی دو تو میں ایک Lever سے پوری دنیا کو کھسکا دوں گا۔‘‘ ایک اور کہانی جو ان کے نام سے مشہور ہے وہ بادشاہ کے تاج کو پانی میں ڈبو کر ملاوٹ کا معلوم کرنا۔روشنی کی کرن Mirror سے ٹکرا کر کس قانون کے تحت لوٹتی ہے یہ بھی Archimedes نے معلوم کیا۔
جیسے جیسے Ionia کے لوگوں کا اثر پھیلتا گیا اور لوگوں نے بھی یہ محسوس کیا کہ کائنات کچھ اصولوں پر چلتی ہے اور اس کو باریکی مشاہدہ اور منطق کے استعمال سے سمجھا جا سکتا ہے۔
ایک اور سائنسداں (Anaximander (610-546BC جو Thales کا دوست اور شائد اس کا شاگرد تھا اس کا ماننا تھا کہ انسان کا بچہ کیونکہ بہت نازک ہوتا ہے اس لئے شائد انسان اس شکل میں درجہ بہ درجہ اتقاء کی کئی منزلیں طے کر نے کے بعد ہی پہنچا ہے۔ اس سمجھ میں Charles Darwin (1809-1882) کی زمین پر زندگی کے ارتقاء کی کہانی کا عکس ہے ۔
سسلی کے رہنے والے (Empedocles (490-430 BC نے ہوا اور خلا کے فرق کو مشاہدہ سے معلوم کیا۔ اسی دوران Ionia کے (Democritus (460-370BC نے یہ بتایا کہ ہر چیز کا سب سے چھوٹا حصہ ائٹم ہوتا ہے۔ یونانی زبان میں ائٹم کا مطلب اس چیز سے ہے جس کو اور چھوٹے حصے میں نہ کاٹا جاسکے۔
شائد Ionia کے مشہور دانشوروں میں آخری (Aristarchus (310-230BC تھا جس نے اس وقت کے لہٰذ سے یہ حیرت انگیز بات کہی کہ انسان اور یہ زمین پوری کائنات کے مقابلے میں بہت ہی معمولی ہیں ۔ اس نے ریاضیات کا استعمال کر کے چاند گرہن کے وقت زمین کے سایہ کے سائز کی پیشن گوئی کی۔ اس نے یہ بھی معلوم کیا کہ سورج زمین سے بہت بڑا ہے اور ہماری زمین نظام شمسی کا ایک حقیر رکن ہے اور سب سیارے سورج کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں ۔ اس کو یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ آسمان میں چمکنےوالے ستارے شائد ہمارے سورج کی طرح ہی ہیں ۔
جس طرح کائنات اور دنیا کے نظام کو سمجھنے کی حیرت انگیز کامیابیوں Ionia کے دانشور اور کو حاصل ہوئی اسی طرح دیگر جگہوں پر بھی قدرت کے اصولوں کو معلوم کرنے کی جدوجہد جاری تھی ، جن کا ذکر اگلے مضمون میں ہوگا۔
Published: 24 Dec 2017, 5:03 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 24 Dec 2017, 5:03 PM IST