(نویں قسط)
ہم پچھلی قسط میں اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ ہر انسان میں ایم ٹی ڈی این اے اپنی ماں سے آتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ڈی این اے میں جو بے ضرر تبدیلیاں (Mutations) ہوتی ہیں ان کی مدد سے ہم ہزاروں پشتوں پہلے اپنی ماؤں کی نشاندھی کرسکتے ہیں۔ ڈی این اے کی ان تبدیلوں کی وجہ سے انسانی برادری کی مختلف شاخیں بنتی ہیں۔ جنیٹکس کی تحقیقات یہ بتاتی ہے کہ مختلف شاخیں بنتی ہیں۔ جنیٹکس کی تحقیقات یہ بتاتی ہے کہ مختلف شاخیں کہاں سے نکلیں اور اس اہم دریافت سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں ہر جگہ سارے انسان افریقہ کی ایک ماں کی اولادیں ہیں۔
Published: undefined
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں ہوموسیپین افریقہ سے کتنے سالوں پہلے آئے۔ جنیٹکس کے ماہرین ایسا کیوں کہتے ہیں کہ افریقہ سے تقریباً 70 ہزار سال پہلے ہوموسیپین کا ایک گروپ باہر نکلا جس کی ہم سب اولادیں ہیں۔ اس کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔
Published: undefined
جنیٹکس کے ماہرین ڈی این اے میں معمولی تبدیلیوں کی رفتار اور اوقات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کی تحقیقات یہ بتاتی ہے کہ ایم ٹی ڈی این اے کی ایل 3 شاخ تقریباً 70ہزار سال پہلے ابھری پھر اس میں این شاخ 61 ہزار سال اور ایم شاخ 48 ہزار سال پہلے بنی۔ کیونکہ افریقہ میں ہوموسیپین کی این شاخ نہیں ہے۔ اس لئے افریقہ سے آنے والے کم از کم 61 ہزار سال پہلے نکلے ہوں گے اور کیونکہ افریقہ میں ایل 3 شاخ موجود ہے اس لئے وہاں سے نکلنے والے (جو ایل 3 شاخ کا حصہ ہیں) 70 ہزار سال سے پہلے ہو ہی نہیں سکتے۔
Published: undefined
اوپر دیئے گئے دلائل سے لگتا ہے کہ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم 70 ہزار سال کے بعد اور 61 ہزار سال سے پہلے افریقہ سے آئے۔ لیکن تمام سمجھ کیونکہ اوسط پر مبنی ہے اس لئے اس میں چند ہزار سالوں کا فرق ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بالکل مستحکم ہے کہ موجودہ انسانوں کے جد و امجد 80 ہزار سال پہلے کے بعد اور 50 ہزار سالوں سے پہلے افریقہ سے آئے۔ ان اوسط اعداد کو ہم دنیا کے بدلتے موسم کے ساتھ اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ کون موسم ہجرت کے لئے سازگار ہوسکتا ہے۔
Published: undefined
71 ہزار سال سے لے کر 57 ہزار سال پہلے تک عالمی برف (Ice Age) کا زمانہ رہا۔ اس دوران دنیا بھر میں انتہائی ٹھنڈ ہونے کی وجہ سے انسانوں اور ہر طرح کے جانداروں کا کسی بھی نئی جگہ جانا بہت مشکل رہا ہوگا۔ اس زمانہ میں زہادہ تر جگہوں پر برف جمع ہوگی، ہوا میں نمی کم اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے سوکھے کا موسم رہا ہوگا۔
Published: undefined
جس زمانے میں ٹھنڈ کم بارش زیادہ ہو تو نئی نئی جگہوں پر تالاب اور جھیلیں بنتی ہیں، ہریالی میں اضٓفہ ہوتا ہے اور ریگستان بھی اچھی چراگاہوں میں بدلتے ہیں ایسے موسم جانوروں کی نئی نئی جگہوں پر جانے کے لئے سازگار ہوتے ہیں اور گائے، بکری، بھیڑ، ہرن وغیرہ اپنے علاقوں سے نکل کر نئی جگہوں پر جاتے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ان کے شکار کی فراوانی کی تلاش میں انسان آتے ہیں۔ اسی وجہ سے اگر ہم افریقہ سے باہر نکلنے والے ہوموسیپین کی تاریخوں کے بارے میں جاننا چاہیں تو اور چیزوں کے ساتھ موسم کے بارے میں بھی معلومات ضروری ہے۔
Published: undefined
زمینی سائنس (Geology)کے ماہرین نے 1960 کے آس پاس سمندروں میں جمی مٹی میں آکسیجن 18 کی مقدار سے عالمی موسم کی بڑی تبدلیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ کن مٹی کی پرتوں میں آکسیجن-18 زیادہ ہوتی ہے وہ آئس ایج اور جن پرتوں میں یہ کم ہوتی ہے وہ نسبتاً گرم موسم کی نشاندھی کرتے ہیں۔ ان معلومات کی مدد سے ہم اب با آسانی لاکھوں سال پہلے تک کن کن زمانوں میں عالمی ٹھنڈ بہت زیادہ رہی، معلوم کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
ان زمانوں کو مختلف (Marine Isotope Stage) میں بانٹا گیا ہے۔ انہیں تحقیقات کی مدد سے یہ اندازہ ہوا کہ 57 ہزار سال پہلے موسم بہتر ہونا شروع ہوا، ٹھنڈ میں کمی ہوئی اور چاروں طرف ہریالی پھیلنا شروع ہوئی اور یہی موسم جانوروں اور ان کے پیچھے پیچھے انسانوں کے نئے نئے علاقوں میں پھیلنے کے لئے حالات سازگار ہوئے۔
Published: undefined
اوپر دیئے گئے دلائل کی وجہ سے جنیٹکس کے ماہرین کا خیال ہے کہ افریقہ سے باہر کامیاب ہجرت کے لئے سب سے سازگار وقت 50 سے 60 ہزار سال پہے کا رہا ہے۔ اس زمانے سے پہلے ایک لاکھ 30 ہزار سے لے کر 71 ہزار سال پہلے کے زمانہ میں خوشگوار موسم تھا لیکن کیونکہ اس وقت ایم ٹی ڈی این اے کی ایل 3 کی ابتداء نہیں ہوئی تھی اس لئے موجودہ ہوموسیپین کے جدو جہد کے افریقہ سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اگلی قسط میں ایشیا میں ہوموسیپین کی آمد کا ذکر ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined