ماہرین کے نزدیک پرندوں خاص کر طوطوں میں اس ذہنی صلاحیت کا سائنسی طور پر ثابت ہو جانا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ صلاحیت ان کی بقا میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کہ طوطے اب تک کے اندازوں کے برعکس کافی زیادہ فکری اہلیت کے مالک ہوتے ہیں، یہ بات جرمنی میں پرندوں پر تحقیق کرنے والے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ایک تازہ مطالعے کے نتیجے میں سامنے آئی۔
Published: undefined
پرندوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین حیاتیات ’اورنیتھالوجسٹ‘ کہلاتے ہیں۔ جرمنی کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار اورنیتھالوجی کے محققین کی اس ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ پرندے فوراﹰ ہی کھانے کی ہر وہ مزیدار چیز قبول نہیں کرتے، جو انہیں پیش کی جائے۔
Published: undefined
اس پروجیکٹ کے محققین نے طوطوں کی ایک بڑی تعداد کو کھانے کے لیے مختلف زرعی اجناس کے بیج پیش کیے تو اکثر طوطوں نے یہ بیج لینے اور کھانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا یا سرے سے اس کھانے میں کوئی دلچسپی ہی نہ دکھائی۔
Published: undefined
لیکن انہوں نے ایسا صرف اس وقت کیا جب وہ اخروٹوں کی ان گریوں کو بھی دیکھ رہے تھے، جو ان سے کچھ ہی دور تھیں اور انہیں اندازہ تھا کہ بعد میں انہیں اخروٹ کے یہی مغز کھانے کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اس مطالعاتی جائزے کے نتائج کی مرکزی مصنفہ انستازیا کراشےنینیکووا کے مطابق، ’’ان طوطوں نے اپنے اس ردعمل کا فیصلہ یہ دیکھتے ہوئے کیا کہ اگر وہ تھوڑا سا صبر کریں، تو انہیں کھانے کے لیے انعام کے طور پر ملنے والے خوراک مقدار میں زیادہ اور لذیذ تر بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
Published: undefined
انستازیا کراشےنینیکووا اپنے کئی ساتھی محققین کے ساتھ اسپین کے جزائر ٹینےریفا پر مختلف اقسام کے 36 پرندوں پر تحقیق کر رہی ہیں۔ لورو پارک فاؤنڈیشن کے اشتراک سے مکمل کیے گئے اس جائزے میں طوطوں کی مختلف اقسام کی خوراک کے حصول کی خواہش اور اس سلسلے میں دانستہ ذہنی رویوں کا مطالعہ کیا گیا۔
Published: undefined
یہ بات تو پہلے سے طے شدہ ہے کہ پرندوں، خاص کر طوطوں کو کھانے کے لیے اگر مختلف زرعی اجناس کے بیج دیے جائیں، تو وہ بھوک لگنے پر انہیں کھا تو لیتے ہیں لیکن یہ اکثر پرندوں کا من پسند کھانا نہیں ہوتا۔
Published: undefined
اس کے بعد دوسرے نمبر پر زیادہ پسند کی جانے والی خوراک سورج مکھی کے بیج تھے، جنہیں پرندے قدرے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ تاہم اکثر طوطوں نے کھانے کے لیے اپنی من پسند خوراک کے حصول کے لیے صبر اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت تک انتظار کیا جب تک کہ انہیں کھانے کے لیے اخروٹ کے مغز پیش نہیں کیے گئے تھے۔
Published: undefined
انستازیا کراشےنینیکووا کے مطابق، ’’اس جائزے کے دوران ان درجنوں پرندوں کو یہ موقع بھی فراہم کیا گیا تھا کہ وہ یا تو اپنے لیے کھانے کی کوئی چیز لے لیں یا پھر کھیلنے کے لیے کوئی کھلونا، جیسے کہ ’لیگو‘ کا کوئی ٹکڑا۔ اکثر پرندوں نے بھوک لگنے پر عام بیجوں کا انتخاب اس وقت کیا، جب انہیں خوراک ملنے کا کوئی دوسرا امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔ لیکن جب ان کے پیٹ بھرے ہوئے تھے تو انہوں نے لیگو کے ٹکڑے جمع کرنا شروع کر دیے۔ پھر جب انہیں بھوک لگی تو انہوں نے پلاسٹک کے کھلونوں کے ٹکڑوں کے عوض اپنے لیے عام بیجوں کے مقابلے میں اخروٹ کے مغز حاصل کرنے کو ترجیح دی۔‘‘
Published: undefined
اس سائنسی مطالعے کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کی اس ٹیم کی طرف سے کہا گیا، ’’ان پرندوں نے اپنے رویوں سے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف سوچ سکتے ہیں بلکہ اپنی ترجیحات کا تعین بھی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ’فوری چھوٹے فائدے‘ کے بجائے ’بعد میں ملنے والے بڑے فائدے‘ کو ترجیح دی۔‘‘
ان ماہرین کے مطابق، ’’یہ پرندے اپنے رویوں میں اقتصادی سوچ کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اچھی چیزیں انہی کو ملتی ہیں، جو ان کے لیے انتظار کرنا جانتے ہیں۔‘‘ ان ماہرین نے اس سائنسی مطالعے سے نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ پرندے، خاص کر طوطے صابر ہونے کے ساتھ ساتھ شاطر بھی ہوتے ہیں اور مخصوص حالات میں اقتصادی منصوبہ ساز بھی۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز