سابق سفارت کار وممبرپارلیمنٹ م۔ افضل نے ’طلاق ثلاثہ بل‘ پرشدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس پرگہرے سوال کھڑے کئے ہیں۔ اپنے ایک تازہ بیان میں انہوں نے کہاکہ سرکار جس طرح عجلت میں یہ اہم بل لے کر آئی اور اسے لوک سبھا سے منظور کروانے میں جو جلدی دکھائی اس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سرکار کی نیت میں کھوٹ ہے۔ اس کا مقصد مسلم خواتین کی فلاح وبہبود نہیں بلکہ مسلم معاشرہ میں انتشار وتفریق پھیلانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ بل پیچیدگیوں اور خامیوں سے بھرا ہوا ہے۔
جاری پریس ریلیز میں افضل نے اس بل کے جواز پر یہ کہہ کر سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو مسترد کیا ہے۔ اسے ’جرم‘ کے صیغہ میں نہیں رکھا ہے مگر سرکار نے اسے ایک سنگین اور غیر ضمانتی ’جرم‘ قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے سوال کیاکہ جب ایک وقت میں تین طلاق دینے سے، طلاق ہی نہ ہوگی تو پھر اس کے لئے شوہر کو’مجرم‘ کیسے ثابت کیاجائے گا؟
انہوں نے یہ بھی سوال کیاکہ اس ’جرم‘ میں شوہر اگر جیل گیا تو بیوی اور بچوں کی کفالت کا کیا ہوگا کیونکہ طلاق تو ہوگی نہیں، وہ بدستور شوہر کے نکاح میں ہوگی، کیا شوہر کے گھر والے اسے قبول کریں گے اور اپنے ساتھ رکھیں گے؟ پھر یہ کہ تین برس کی جیل کاٹ کر جب شوہر باہر آئے گا تو کیا وہ اسے اپنی بیوی کے طور پر رکھے گا؟ ایسے میں اس خاتون کا مستقبل کیا ہوگا؟ اگر بچے بھی ہیں جو جیل جانے کی صورت میں ان کے اخراجات کون اٹھائے گا؟
افضل نے کہا کہ بل کے منفی نتائج کی پروا کئے بغیر اسے تیار کیاگیا ہے اس کے لئے کسی سے صلاح ومشورہ بھی نہیں کیاگیا بلکہ یہ بل ملک کی دوسری بڑی اکثریت کی معاشرتی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ سرکار بل کی تیاری کے وقت اپوزیشن پارٹیاں ہی نہیں بلکہ مسلم تنظیموں کے نمائندوں اور علماء سے بھی صلاح ومشورہ کیا جاتا اور ان کی تجاویز کی روشنی میں اس کامسودہ تیار ہوتا۔
سرکار کے اس رویہ سے ظاہر ہے کہ اسے مسلم خواتین کی نہیں اپنے ووٹ کی فکر ہے۔ انہوں نے مسلم پرسنل لاء بورڈ پر بھی سوال اٹھائے اور کہاکہ بورڈ نے طلاق ثلاثہ کے معاملے میں سخت لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے معاملے کی حساسیت کو نہیں سمجھا۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ یہ معاملہ نیا نہیں ہے۔ شاہ بانو کیس میں بھی یہ معاملہ شدت سے اٹھا تھا اور تب سے بہت سے لوگ وقفے وقفے سے اس مسئلے کو اٹھاتے رہے ہیں۔ ایسے میں بورڈ اگر حساس اور متحرک ہوتا اور اس کو لے کر اجتماعیت کے ساتھ کوئی فیصلہ لے لیاجاتا تو سبکی نہ اٹھانی پڑتی۔
افضل نے مزید کہاکہ اجماع اور اجتہاد کے ذریعے معاملے کو طے کرکے عدالت سے باہر ہی اس کو حل کیا جاسکتا تھا۔ قرآن میں جو ہدایت موجود ہیں ہم اسے ہی تسلیم کرتے ہیں اور اس سے الگ ہٹ کر دوسرے طریقۂ طلاق کو غلط قرار دیا جاسکتا تھا۔ پھر تو یقیناعدالت کا فیصلہ کچھ اور ہی ہوتا۔
انہوں نے کہاکہ حال ہی میں بورڈ کے تعلق سے پروفیسر سیف الدین سوز نے جو خود بھی بورڈ کے ممبر ہیں، جو کچھ کہاہے میں اس سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں۔ افضل نے کہاکہ میں خود بورڈ کا ممبر رہا ہوں اور اس وقت میں نے بھی شدت سے یہ محسوس کیاکہ محض دو یا تین لوگوں کی سوچ اور اشارے پر ہی بورڈ کام کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بورڈ کے اندر اتحاد واتفاق کا ہمیشہ فقدان رہا ہے اور وہ مسلمانوں کے شرعی حقوق کا تحفظ کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہا ہے۔
انہوں نے آخر میں کہاکہ اب یہ بل راجیہ سبھا میں ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ تمام سیکولر پارٹیاں ایک مثبت رخ اپناکر ایوان میں اس بل کی خامیوں کو اجاگر کریں گی اور اسے غور وخوض کے لئے سیلکٹ کمیٹی کے حوالے کردیاجائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ موجودہ شکل میں اس بل کا منظور ہونا آگے چل کر انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ مسلم معاشرے میں اس سے نہ صرف انتشار ونفاق پیدا ہوگا بلکہ بہت سے خاندان تباہی وبربادی سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
Published: 02 Jan 2018, 2:44 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Jan 2018, 2:44 PM IST