کانگریس کے ترجمان گورو ولبھ نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا کہ گزشتہ 14 سالوں کے دوران گجرات میں 6000 کروڑ روپے کا کوئلہ گھوٹالہ سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا اس مدت میں چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو کوئلہ دینے کے بجائے گجرات حکومت کی ایجنسیوں نے اسے زیادہ قیمت پر دوسری ریاستوں کی صنعتوں کو بیچ کر 6000 کروڑ روپے کا گھپلہ کیا ہے۔ کول انڈیا کی مختلف کوئلہ کانوں سے نکالا گیا کوئلہ ان صنعتوں تک نہیں پہنچا جن کے لیے اسے نکالا گیا تھا۔
Published: undefined
واضح رہے گزشتہ 14 سالوں میں کول انڈیا کی کانوں سے 60 لاکھ ٹن کوئلہ گجرات کے تاجروں اور چھوٹی صنعتوں کے نام پر بھیجا گیا ہے۔ اس کی اوسط قیمت 3,000 روپے فی ٹن کے حساب سے 1,800 کروڑ روپے ہے، لیکن اسے تاجروں اور صنعتوں کو فروخت کرنے کے بجائے، اسے دیگر ریاستوں میں 8000 سے 10000 روپے فی ٹن کی قیمت پر فروخت کیا گیا ہے۔ گورو نے وزیر اعظم پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ سال 2008 سے ’خوب کھاؤنگا اور خوب کھانے دونگا‘ کا پروگرام چل رہا تھا۔
Published: undefined
یو پی اے حکومت نے سال 2007 میں ملک بھر کی چھوٹی صنعتوں کو سستی قیمتوں پر اچھے معیار کا کوئلہ فراہم کرنے کے لیے ایک پالیسی بنائی تھی۔ اس پالیسی کے تحت گجرات کی چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے لیے کول انڈیا کے مغربی کول فیلڈ اور ساؤتھ ایسٹ کول فیلڈ سے ہر ماہ کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ گجرات حکومت کو کوئلے سے فائدہ اٹھانے والی صنعتوں کی فہرست، کوئلے کی مطلوبہ مقدار، کس ایجنسی سے کوئلہ بھیجا جائے گا سمیت تمام معلومات بھیجنی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گجرات حکومت کو ریاستی نامزد ایجنسی (SNA) کی فہرست بھیجنی ہوتی ہے۔ ایس این اے کا مطلب ریاستی حکومت کی طرف سے طے کردہ ایجنسی ہے، جو کول انڈیا سے کوئلہ ریاست کے مستفید ہونے والوں، چھوٹے پیمانے کی صنعتوں، چھوٹے تاجروں تک لے جانے کی مجاز ہے۔ گجرات حکومت کی طرف سے کول انڈیا کو بھیجی گئی معلومات غلط نکلی۔ دستاویزات میں کول انڈیا سے جن صنعتوں کے نام پر کوئلہ نکالا گیا تھا، ان صنعتوں تک کوئلہ پہنچا ہی نہیں۔
Published: undefined
ایجنسیاں ہر سال گجرات کی فائدہ مند صنعتوں کے نام پر کول انڈیا سے کوئلہ خریدتی ہیں، لیکن ایجنسیاں اس کو فائدہ اٹھانے والوں کو دینے کے بجائے کھلے بازار میں مہنگے داموں پر کوئلہ بیچ کر کروڑوں روپے کماتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ایجنسیوں نے اس گیم کے لیے جعلی بل بنائے ہوں اور انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور جی ایس ٹی کی چوری کی ہو۔ دوسری ریاستوں میں ریاستی حکومت کے ایک خاص محکمے ایس ایم ای کو کوئلہ تقسیم کرنے کا کام سونپا جاتا ہے، جب کہ گجرات میں اس کے لیے برسوں کے دوران صرف چند منتخب ایجنسیوں کا تقرر کیا گیا ہے۔ یہی نہیں کول انڈیا کی ویب سائٹ پر دیگر ریاستوں نے مالی سال کے مطابق کوئلے کی مقدار، متعلقہ ایجنسی/دفتر کا پورا نام، ٹیلی فون نمبر، ای میل ایڈریس وغیرہ کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں، جبکہ گجرات حکومت نے معلوماتی کالم میں ایجنسی کا نام بطور abcd ،asdf اور رابطہ نمبر 999999999۔
Published: undefined
اتفاق یا تجربہ
یہ بات دلچسپ ہے کہ شری نریندر مودی (2001 سے 2014 تک گجرات کے وزیراعلیٰ تھے) ساتھ ہی حکومت گجرات کے صنعت، کانوں اور معدنیات کے محکموں (دسمبر 2007 سے دسمبر 2012) پر فائز رہے جس کے بعد وجے روپانی (اگست 2016 سے ستمبر 2021 تک) اور بھوپیندر پٹیل (ستمبر 2021 سے) حکومت گجرات کے صنعت، کانوں اور معدنیات کے محکموں کے ذمہ دار ہیں۔
Published: undefined
سوالات اور مطالبات
سپریم کورٹ آف انڈیا کے موجودہ جج کے تحت ایک تفتیشی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جو طے شدہ مدت میں اپنی جانچ رپورٹ پیش کرے۔ اس تحقیقات میں 2008 سے لے کر آج تک گجرات کے تمام 4 وزیر اعلیٰ (یعنی نریندر مودی، آنندی بین پٹیل، وجے روپانی اور بھوپیندر بھائی پٹیل) کے کردار کی اس معاملہ میں تحقیقات ہونی چاہئیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز