پریس ریلیز

ہلدوانی میں رہنے والے لوگ بھی انسان ہیں، عدالت بے رحم نہیں ہوسکتی: سپریم کورٹ

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ بے رحم ہو کر لوگوں کے مکانات توڑنے سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ آف انڈیا / تصویر: آئی اے این ایس

 

نئی دہلی: ہلدوانی میں ریلوے کالونی کے پچاس ہزار لوگوں کو راحت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ کی ریاستی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ ریلوے اسٹیشن کے لیے زمین محفوظ کرنے سے قبل وہاں رہنے والوں کی بازآبادکاری کا انتظام کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ جو لوگ یہاں رہ رہے ہیں، ان کے پاس بھی ملکیت کے دعوی کے لیے دستاویزات موجود ہیں۔ جسٹس سوریہ کانت نے معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ آئیے مان لیتے ہیں کہ وہ تجاوزات کرنے والے ہیں، پھر بھی سوال یہ ہے کہ یہ سب انسان ہیں جو کئی دہائیوں سے پختہ مکانات میں رہ رہے ہیں۔ جسٹس کانت نے صاف صاف کہا کہ عدالتیں بے رحم نہیں ہو سکتیں، لیکن ساتھ ہی تجاوزات کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔

Published: undefined

واضح رہے کہ 5 جنوری 2023 کو سپریم کورٹ نے جمعیۃ علماء ہند و دیگر تنظیموں کی عرضی پر انہدامی کارروائی پر اسٹے دے دیا تھا۔ اس معاملے میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر متاثرہ علاقہ کے رہائشی عمران و دیگر متاثرین کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ رؤف رحیم اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ منصور علی پیش ہوئے۔ دفتر جمعیۃ علماء ہند سے قانونی مشاورت کی ذمہ داری ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی نے ادا کی۔ اس درمیان ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی کی سربراہی میں جمعیۃعلماء ہند کے وفد نے متعدد بار ریلوے کالونی کے لوگوں سے ملاقا ت بھی کی۔

Published: undefined

گزشتہ 24 جولائی کو ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھٹی نے عدالت کو مطلع کیا کہ قابضین کے خلاف پبلک پریمیسس ایکٹ 1971 کے تحت کارروائی بھی زیر التوا ہے۔ جسٹس کانت نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ وہاں 5 دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ آپ اتنے سالوں سے کیا کر رہے تھے؟

Published: undefined

جب اے ایس جی نے کہا کہ ریلوے نے پبلک پریمیسس ایکٹ کے تحت کارروائی کا اختیار کلکٹر کو سونپ دیا ہے، تو جسٹس کانت نے پوچھا کہ ’’انھوں نے کیا کیا؟ ہم کیوں نہ کلکٹر کو جواب دہ بنائیں؟‘‘جب بنچ نے پوچھا کہ موجودہ مقاصد کے لیے کتنے لوگوں کو بے دخل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس پر اے ایس جی نے جواب دیا کہ ’’1200 جھونپڑیاں۔‘‘

Published: undefined

سماعت کے دوران بنچ کو بتایا گیا کہ تقریباً 30.40 ہیکٹر ریلوے/سرکاری اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے اور وہاں تقریباً 4365 مکانات اور پچاس ہزار سے زیادہ مکین ہیں۔ سپریم کورٹ نے ریلوے کی ضرورت کو تسلیم کیا، لیکن متاثرہ افراد کے ساتھ انسانیت پر مبنی رویہ اختیار کرنے اور بحالی کی ضرورت پر زور دیا۔ بنچ نے حکومت ہند اور ریاست اتراکھنڈ کو ہدایت دی کہ 1. ریلوے لائنوں کو منتقل کرنے یا ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے بغیر کسی تاخیر درکار زمین کی پٹی (چوڑائی اور لمبائی) کی نشاندہی کریں۔ 2. ان خاندانوں کی شناخت کریں جو انخلا کی صورت میں متاثر ہوں گے۔ 3. ایسی جگہ تجویز کریں جہاں ایسے متاثرہ خاندانوں کی بحالی ہو سکے۔ عدالت نے اتراکھنڈ کے چیف سکریٹری کو ہدایت دی کہ وہ ریلوے حکام (ڈویژنل سینئر مینیجر، اتراکھنڈ) اور ہاؤسنگ و شہری امور کی وزارت، حکومت ہند کے ساتھ ایک میٹنگ منعقد کریں تاکہ فوری طور پر بحالی کا منصوبہ تیار کیا جا سکے جو منصفانہ ہو اور تمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہو۔ عدالت نے کہا کہ مطلوبہ زمین نشاندہی کی جانی چاہیے۔ اسی طرح اس زمین پر تجاوزات کی صورت میں متاثر ہونے والے خاندانوں کی بھی فوری نشاندہی کی جائے۔ یہ عمل چار ہفتوں میں مکمل ہوجانی چاہیے۔ کیس کی اگلی سماعت 11 ستمبر 2024 کو ہوگی۔

Published: undefined

عدالت کے اس فیصلے پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ حال میں غریب اور پسماندہ طبقات کے مکانات کے انہدام میں انسانی حقوق کی پامالی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں انسانی پہلو کو سامنے لا کر ایسی حکومتوں کو آئینہ دکھلایا ہے جو مکانات کے توڑتے وقت جبر و تشدد اور بے رحمی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مولانا مدنی نے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مکانات کے انہدام کے دوران انسانی پہلو کو مدنظر رکھیں اور جبر و تشدد سے باز رہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف متاثرہ افراد کے لئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوری اقدار اور آئینی اصولوں کی پاسداری ہر صورت میں ضروری ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined