مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، سکریٹری و ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ اسلام میں نکاح حلالہ کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ شریعت میں اس نام سے کسی نکاح کا ذکر کیا گیا ہے۔ تین طلاق کے بعد شرعاً رشتۂ نکاح ختم ہو جاتا ہے اور مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے مکمل طور پر حرام ہو جاتے ہیں۔ البتہ ایک استثنائی صورت یہ ہے کہ تین طلاق کے بعد کسی دوسرے مرد سے اس عورت کا نکاح ہو اور اتفاق سے اس دوسرے شوہر سے بھی اس کا نباہ نہیں ہو سکا، اور طلاق ہو گئی تو اب سابق شوہر سے اس کا نکاح ہو سکتا ہے۔ یہ اتفاقی واقعہ ہے، کوئی منصوبہ بند عمل نہیں ہے جیسا کہ میڈیا پیش کر رہا ہے۔ اسی طرح اسلام میں ایک سے زیادہ نکاح کی ترغیب تو نہیں دی گئی ہے؛ لیکن اس کی گنجائش رکھی گئی ہے کیونکہ عام طور پر مردوں میں شرح اموات زیادہ ہوتی ہے اس کی وجہ سے بمقابلہ مردوں کے عورتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات اخلاقی اقدار کے تحفظ کے لیے تعدد ازدواج کا تناسب ملک کی دوسری تمام اکائیوں کے مقابلہ کم ہے، اور ملک کا دستور مسلمانوں کو اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس لیے سپریم کورٹ میں ان دونوں مسئلوں پر مسلم پرسنل لاء کے خلاف جو درخواستیں دائر کی گئی ہیں، وہ معزز عدالت کو گمراہ کرنے اور غلط فہمی پیدا کرنے کی سازش ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں۔ بورڈ مسلم پرسنل لاء سے مربوط دوسرے مقدمات کی طرح اس میں بھی عدالتی چارہ جوئی اور قانونی جدوجہد کرے گا، اور ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ میں اس کے خلاف پیروی کرے گا۔ سپریم کورٹ نے اس وقت حکومت سے اس کا منشا معلوم کرنے کے سلسلے میں جو نوٹس جاری کیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ مختلف مذہبی اکائیوں کو دستور میں جو مذہبی آزادی دی گئی ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا جواب داخل کرے۔ ساتھ ہی یہ وضاحت کرے کہ ان مسائل کا تعلق مسلمانوں کے پرسنل لاء سے ہے، جس کو دستور میں تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined