نئی دہلی: سپریم کورٹ کی 7 رکنی بنچ نے آج کثرت رائے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار سے متعلق 1967 کے سید عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا ججمنٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ عزیز باشا کے فیصلے میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کوئی ادارہ جسے کسی سنٹرل ایکٹ کے ذریعے قائم کیا گیا ہو، وہ اقلیتی کردار کا حق دار نہیں ہو سکتا۔
Published: undefined
اس کے برعکس آج چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اپنے ہی سابقہ فیصلے کو پلٹتے ہوئے کہا کہ کسی ادارے کا اقلیتی کردار محض اس بنیاد پر ختم نہیں ہو سکتا کہ اس ادارہ کا قیام پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعہ عمل میں آیا ہے۔ لہٰذا عزیز باشا مقدمہ میں سپریم کورٹ کا سابقہ موقف اور استدلال دونوں غلط ہے۔
Published: undefined
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے فیصلہ سناتے ہوئے مزید کہا کہ آرٹیکل 30 کا اطلاق ان سبھی اداروں پر یکساں طور پر ہوتا ہے جو آئین ہند نافذ ہونے سے قبل قائم ہوئے ہیں اور جو آئین کے نفاذ کے بعد قائم ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اقلیتی ادارہ ہونے کے لیے صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ ادارہ مکمل طور پر اقلیت کے ہاتھ میں ہو، بلکہ اس کا قیام اقلیت کے ذریعے ہونا لازمی ہے۔
Published: undefined
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اہم اور دور رس نتائج کا حامل بتایا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اس فیصلے نے موجودہ حکومت کو بھی آئینہ دکھایا ہے جو اقلیتی کردار کی بحالی میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی، اور اس نے سابقہ حکومت کے موقف کے خلاف عدالت میں اقلیتی کردار کوختم کرنے کا موقف اختیار کیا تھا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ مسلم اقلیت کے تعلیمی اور آئینی حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے۔ اس کی مثال حال میں دینی مدارس کے خلاف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے جاری منفی مہم کو روکنے کی کوشش ہے۔ اسی طرح عزیز باشا کیس کے بارے میں جب 1967 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا تو جمعیۃ علماء ہند نے فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی قیادت میں 14 سالوں تک اس کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر و باہر طویل لڑائی لڑی تھی۔ اسی پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام 29 اگست 1981 کو ایک ’کل ہند کنونشن برائے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ نئی دہلی میں منعقد کیا گیا، جس میں ملک کے گوشے گوشے سے بھاری تعداد میں مندوبین نے شرکت کی۔
Published: undefined
اس اجلاس میں جمعیۃ علماء ہند نے حکومت ہند سے پرزور مطالبہ کیا کہ مسلم یونیورسٹی کے ترمیمی بل کو پارلیمنٹ سیشن میں منظور کر کے اقلیتی کردار کو بحال کیا جائے۔ جمعیۃ علماء ہند کی اس طویل جدوجہد کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے 1981 میں اس ایکٹ کو منظوری دی۔ تاہم بیوروکریسی کی فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے اس ایکٹ میں چند خامیاں چھوڑ دی گئیں، جن کی وجہ سے مداخلت کی راہ کھلی رہ گئی اور نتیجے کے طور پر 2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک بار پھر اقلیتی کردار کو ختم کر دیا۔ 2006 میں جمعیۃ علماء ہند نے اس فیصلے کے تناظر میں ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کی اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا مشورہ دیا، جس پر اُس وقت کی حکومت نے عمل بھی کیا اور خود حکومت ہند نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپنا حلفیہ موقف پیش کیا۔ لیکن 2014 کے بعد این ڈی اے حکومت نے سابقہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے اقلیتی کردار کو کالعدم کرنے کے حق میں عدالت میں حلفیہ بیان داخل کیا۔
Published: undefined
حکومت کے اس رویے کے خلاف گزشتہ 10 سالوں سے جمعیۃ علماء ہند نے ہر ممکن جدوجہد کی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو مسلمانان ہند کا ایک گراں قدر سرمایہ ہے، محفوظ رہے اور ان مقاصد کی تکمیل کے لیے کامیابی کے ساتھ اپنی منزلیں طے کرتی رہے جن کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ بالخصوص اس پس منظر میں کہ آج مسلمان تعلیمی اعتبار سے انتہائی پسماندہ ہیں اور مختلف رپورٹوں نے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔ مسلم اقلیت کے لیے قائم کردہ اداروں کے کردار کو بدلنا درحقیقت مسلم اقلیت کے ساتھ عداوت اور اسے مزید پسماندگی میں دھکیلنے کی کوشش ہے۔
Published: undefined
مولانا مدنی نے اس موقع پر سپریم کورٹ میں قانونی مقدمہ لڑنے والے ادارے اے ایم یو اور اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن و دیگر مداخلت کاروں کی قانونی جدوجہد کی ستائش کی۔ مولانا مدنی نے مسلم اقلیت سے خاص طور پر اپیل کی کہ وہ تعلیم پر توجہ دیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملک و ملت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined