نئی دہلی: معروف صحافی و ادیب لئیق رضوی کی تصنیف ’عوامی مرثیے کی روایت‘ پر ایک مذاکرے کا انعقاد کیا گیا۔ غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین، نئی دہلی کے زیراہتمام غالب اکیڈمی آڈیٹوریم میں منعقدہ مذاکرے کی صدارت سابق صدر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر خالد محمود کی، جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر آیت اللہ سید عقیل الغروی مدعو تھے۔
Published: undefined
آیت اللہ سید عقیل الغروی نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ لئیق رضوی نے پچیس برسوں کی محنت کے بعد یہ کتاب تالیف کی۔ یہ کتاب پچیس برسوں کی محنت و مشقت کا خلاصہ ہے۔ اس موضوع کو پروجیکٹ بناکر اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تمام اصناف سخن اپنے انداز سے تربیت کرتی ہیں، لیکن مرثیہ آپ کو شقی القلب بننے سے روک لیتا ہے۔ عوامی مرثیے میں غریب،نادار اور ناآسودہ حضرات کے برجستہ جذبات ملتے ہیں۔ مرثیے کی نشتریت صرف انیس کے یہاں ہی نہیں،ان عوامی مرثیوں میں بھی مل جاتی ہیں۔
Published: undefined
مذاکرے کا افتتاح مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے چانسلر پروفیسر اختر الواسع نے کیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ عوامی مرثیے کی روایت کو لئیق رضوی نے جلا بخشی ہے۔ عوامی مرثیے کی روایت ہمیں بتاہی ہے کربلاہمارے شعور کا نہیں بلکہ لاشعور کا حصہ ہے۔اس کتاب کے اندر خاص بات یہ ہے کہ شمالی ہند، پنجاب، اودھ اور دکن وغیرہ کی بھی روایات اور نمونے موجود ہیں۔ انہوں نے صرف تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ عوامی روایت کا متن بھی پیش کیا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے ایک بات اور دیکھنے کو ملے گی کہ اس میں صرف عوام ہی شامل نہیں ہیں بلکہ بڑے شعراء نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ لئیق رضوی کا یہ کام ان کے سفر کا پہلا پڑاؤ ہے۔ لئیق رضوی نے مختلف میدانوں میں زور آزمائی کی ہے، یہ صحافی بھی ہیں اور ادیب بھی۔ لئیق رضوی کسی کام سے زندہ رہیں یا نہ رہیں لیکن عوامی مرثیے کی روایت انہیں زندہ رکھے گی۔
Published: undefined
پروفیسر خالد محمود نے صدارتی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ موضوع میری دلچسپی کا ہے، اس کتاب میں لئیق رضوی نے جو محنت کی ہے یہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کے عنوان میں جذبات کو محسوس کرنا چاہئے فن پر توجہ کی ضرورت نہیں، بنیادی طور پر عوامی مرثیہ فن کی شاعری نہیں بلکہ جذبات کی شاعری ہے۔
Published: undefined
مقررین میں اردو اکادمی دہلی کے وائس چیئرمین پروفیسر شہپر رسول اور شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ پروفیسر احمد محفوظ بھی شامل تھے جنھوں نے کتاب کے حوالے سے اپنے تاثرات رکھے۔ اس موقع پر غالب اکیڈمی کے سیکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے خیرمقدمی کلمات پیش کیے۔ جاوید مشیری نے سلام پیش کیا جب کہ مشہور شاعر معین شاداب نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
Published: undefined
پروفیسر شہپر رسول نے اس موقع پر کہاکہ میں لئیق رضوی کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، عوامی اظہارات کے مختلف طریقے ہیں، عوامی مرثیوں میں جو سچائی نظر آتی ہے،اس کی مثال نہیں ملتی۔ انیس و دبیر خالصاً مرثیے کے شاعر ہیں،اور اردو میں جو بڑے پانچ عظیم شاعرہیں،ان میں ایک انیس ہیں۔ مرثیہ بہت ہی مالدار صنف ہے۔ جس میں مختلف اظہارملتے ہیں، شہپر رسول نے کتاب کے مختلف ابواب کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اور کہاکہ لئیق رضوی نے عوامی مرثیے کی روایت پر جس خوبصورتی سے یہ محققانہ کارنامہ انجام دیا ہے وہ ان کاہی حصہ تھا۔انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ عوامی مرثیوں کا ایک انتخاب بھی اہم کام ہے، جس پر وہ کام کریں اور اسے شائع کریں۔
Published: undefined
پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے خطاب میں کہاکہ لئیق رضوی صحافت کے میدان میں آگیے لیکن علم و ادب کا جو سنجیدہ رویہ رہتا ہے، اسے انہوں نے نہیں چھوڑا اور ادب سے مستقل وابسطہ رہے۔ اس کتاب کے علاوہ تازہ ترین کتاب ترقی پسند ادبی صحافت پر گفتگو ہونی ہے۔اس کتاب کے عنوان میں کافی معنویت موجود ہے، عام طور پر کتابوں کی تصنیف میں اس حد تک محنت نہیں کی جاتی ہے،انہوں نے اپنی نوعیت کا منفرد کام انجام دیا ہے۔یہ بات بالکل درست ہے کہ نقش اول ہے، کربلا کا پورا واقعہ ہمارے وجود اور اجتماعی وجود کا حصہ ہے۔
Published: undefined
قبل ازیں ڈاکٹر عقیل احمد نے خیرمقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ میں تمامی حضرات کا والہانہ استقبال کرتا ہوں، غالب اکیڈمی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ اہم کتابوں پر مذاکرہ بھی منعقد کرتاہے اور اسی ضمن میں اس کتاب پر مذاکرے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے مختلف النوع ہے، لئیق رضوی نے اس کتاب پر کافی مشقت کی ہے اور اس کتاب پر گفتگو کی کافی گنجائش موجود ہے۔
Published: undefined
کتاب کے مصنف لئیق رضوی نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میں غالب اکیڈمی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ خوبصورت محفل سجائی ہے، آقا حسینؑ کی شہادت جب ہندوستان پہنچی تو اس ہندوستان کی دھرتی نے اسے اپنے دل سے لگایا اور ایسا لگنے لگا کہ یہ کربلا جیسے ہندوستان کا کوئی واقعہ ہے۔ ہندوستان کی تمام زبانوں میں کربلائی واقعات موجود ہیں۔ ان کلام کو سن کرمحسوس ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کے کسی اوتار کا ہی واقعہ ہو، فن شاعری کے پیمانے سے قطعۂ نظر یہاں کی علامتین اور زبانیں وہ عوامی مرثیے کی روح ہیں۔مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ شاعری کی روح کربلائی مرثیوں میں موجود ہیں۔ مجھے خلش پیدا ہوئی تو میں نے یہ کتاب مکمل کی۔شرکاء میں سینئر صحافی ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی، طلعت رضوی، ریشما آفتاب، ریسرچ اسکالر فرحت انوار، صدراوغیرہ نے شرکت کی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined