الور: راجستھان کے تحصیل تجارہ کے گاؤں ربھانہ میں دلت مسلم اشتراک سے کسانوں، دلت، مسلم اور پسماندہ طبقات کے مسائل کو لے کر ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی۔ جس میں دیہی علاقوں سےوابسطہ افراد کے علاوہ ادبی ، سماجی ، تعلیمی و سیاسی میدان سے وابسطہ اہم سرکردہ شخصیات نے بھی شرکت کی۔ میٹنگ کے دوران ملک کے موجودہ تشویشناک حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں سابق راجیہ سبھا رکن محمد ادیب مہمان خصوصی کے طور پر موجود رہے ۔
میٹنگ میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر نریندر کمار، ریٹائرڈ سابق ڈی جی وی ایس رائے، پروفیسر ویپن کمار ترپاٹھی، معروف سماجی کارکن اجے کمار، پروفیسر انعام احمد، مقامی گاؤں کے سرپنچ خورشید احمد نے شرکت کی ۔
اس موقع پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر نریندر کمار نے افروز الاسلام اور پہلو خاں کے قتل معاملہ پر بولتے ہوئے حکومت کے رویہ پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’شرپسندوں نے پہلو خان جیسے کسان کو گئواسمگلر کے نام پر اور افروز الاسلام جیسے مزدور کو لو جہاد کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان معالات پر میڈیا کا رویہ بھی ٹھیک نہیں رہا اور میڈیا نے عوامی رائے عامہ کو حقائق سے دور رکھنے کی کوشش کی ۔ حکومت نے بھی شرپسندوں پر کوئی خاص کارروائی نہ کر کے ہندو وادی و شدت پسند طاقتوں کوتقویت فراہم کی ہے۔‘‘
پروفیسر وپن کمار ترپاٹھی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ الور کے دیہی علاقوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ آنے والے وقت میں کسان اپنے بیٹے کو کسان نہیں بنائے گا کیوں کہ تمام ترقیاتی منصوبے موجودہ حکومت سرمایہ داروں کے لیے بنا رہی ہے۔ ‘‘
ریٹائرڈ سابق ڈی جی پی ایس رایہ نے کہا کہ آج ایسے حالات بنا دیئے گئے ہیں، جو ملکی قوانین سے متصادم ہو رہے ہیں، ایسے حالات میں صرف اور صرف انسانی بنیادوں پر ہی انسانیت بچ سکتی ہے۔
سابق راجیہ سبھا رکن محمد ادیب نے اپنے کلیدی خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں گاؤں سطح کی مٹینگ میں طویل علالت کے بعد اس لیے آیا ہوں کہ میری زندگی کی ابتدا گاؤں کے ہی ماحول میں ہوئی تھی، اس لیے یہاں کے دیہی علاقوں میں خوف و دہشت کے ماحول کو جیسا بنایا جا رہا ہے ، میں اس کو بخوبی سمجھ سکتا ہوں، انہوں نے کسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک کے کسانوں کو اپنی طاقت کو سمجھنا ہوگا، اس لیے موجودہ تشویشناک صورت حال سے ملک کو بچانا ہے تو ملک کے کسان اور نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا، میرے دل میں اس وقت درد کا احساس ہوتا ہے، جب کسانوں کی بدحالی کا منظر سامنے آتا ہے، موصوف نے کہا کہ جس تعلیم کے ساتھ تربیت کا عنصر نہ ہو تو میری رائے یہ ہے کہ ایسی وحشیانہ تعلیم سے گریز کرنا ہی بہتر ہے، چونکہ بغیر تربیت والی تعلیم سے وحشی پیدا ہو رہے ہیں، ایک زمانہ تھا جب گاؤں کی ہر بہن، بیٹی کو انسان اپنی بہن ، بیٹی سمجھتا تھا، لیکن بغیر تربیت والی نسل نو تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف جاتی نظر آرہی ہے ، آج ہر بہن ،بیٹی کی زندگی محفوظ تصور نہیں کی جا سکتی ، اس لیے اپنے کلچر اور تہذیب کو بچانے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی بچانا ہوگا، انہوں نے کہا کہ میوات تو وہ ہے جہاں سے ملک کا پہلا وزیر تعلیم منتخب ہوا تھا، اس لیے اس ملک کو گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیات کے نظریہ خطوط پر ہی بچایا جا سکتا ہے، چونکہ جس شخص کو ہمارے اکابرین نے خصوصاً مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، جیسے قائدین نے اپنا اور مسلمانوں کا گاندھی جی کو قائد اعظم مانا تھا، سب سے پہلی ملک کی باطل اور فرقہ پرست طاقتوں نے ان کا ہی تھوڑے عرصے بعد قتل کردیا، آج گاندھی کے نظریات کو قتل کیا جا رہا ہے، ہمارے قائد مولانا ابوالکلام آزاد نے جہاں دایئں ہاتھ سے مسلم لیگ کی مخالفت کی، وہیں بایئں ہاتھ سے آ ر ایس ایس کی مخالفت کی تھی اس کے باوجود آج مسلمانوں کو موجودہ حکومت اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا رہتے ہوئے احساس کمتری کا احساس دلاکر دوسرے نمبر کا شہری بنانے کے لیے پر عزم نظر آرہی ہے، چونکہ اس کی سیاست کا محور اسی کے ارد گرد گھومتا رہتاہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined