نئی دہلی: 27 فروری 2002 کو ایودھیا سے بذریعہ سابرمتی ٹرین لوٹ رہے 59 کارسیوکوں کو مبینہ طور پر زندہ جلانے کے الزامات کے تحت ہائی کورٹ سے عمر قید کی سزا پانے والے ملزمین کی اپیلوں پر حتمی سماعت کے لیے سپریم کورٹ راضی ہو گئی ہے۔ گذشتہ دنوں اس اہم معاملے کی سماعت سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بنچ کے جسٹس جے کے مہیشوری اور جسٹس کے وی وشوناتھن کے روبرو عمل میں آئی جس کے دوران عدالت نے فریقین کے وکلاء کو حکم دیا کہ وہ چار ہفتوں کے اندر اپنا تحریری جواب عدالت میں داخل کریں۔ تحریری جواب داخل ہونے کے بعد عدالت اس مقدمہ کی حتمی سماعت کیے جانے کی تاریخ متعین کرے گی۔
Published: undefined
ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے گجرات ہائی کورٹ سے عمر قید کی سزا پانے والے 31 ملزمین نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں اپیل داخل کی تھی۔ ملزمین کی جانب سے اپیلیں 2018 میں داخل کی گئی تھی، اپیلوں پر سماعت نہیں ہونے کی وجہ سے چند ملزمین کی ضمانت عرضداشتیں بھی داخل کی گئی تھیں جنہیں عدالت نے منظور کر لیا تھا جبکہ بقیہ ملزمین کی ضمانت عرضداشتیں مسترد کرتے ہوئے معاملے کی حتمی سماعت کیے جانے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ گودھرا مقدمہ اپنی نوعیت کا ایک بہت بڑا مقدمہ ہے جس میں تحقیقاتی دستوں نے قتل، اقدام قتل اور مجرمانہ سازش کے الزامات کے تحت 94 مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا جہاں نچلی عدالت نے ثبوتوں کی عدم موجودگی کے سبب 63 ملزمین کو باعزت بری کردیا تھا وہیں 20 ملزمین کو عمر قید اور 11 دیگر ملزمین کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ 9 اکتوبر 2017 کو گجرات ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس اننت ایس دَوے اور جسٹس جی آر وادھوانی نے اپنے 987 صفحات پر مشتمل فیصلہ میں ایک جانب جہاں نچلی عدالت سے ملی عمر قید کی سزاؤں کو برقرار رکھا تھا وہیں پھانسی کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کر کے ملزمین کو کچھ راحت دی تھیں۔ سپریم کورٹ داخل اپیلوں پر اگلے مہینہ سے حتمی سماعت کرے گی۔ ایک جانب جہاں عدالت متذکرہ ملزمین کی اپیلوں پر سماعت کرے گی وہیں حکومت گجرات کی جانب سے سزاؤں میں اضافہ کی اپیلوں پر بھی سماعت کرے گی۔ حکومت گجرات نے عمرقید کی سزاؤں کو پھانسی کی سزاؤں میں تبدیل کرنے کی اپیل سپریم کورٹ میں داخل کی ہے۔
Published: undefined
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ کے گودھرا سانحہ کو حتمی سماعت کے لیے تیار ہونے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند ملزمین کو بری کرانے کے لیے ملک کے نامور کریمنل وکلاء کی خدمات حاصل کرے گی، اور ان کے مقدمات کو مضبوطی سے لڑے گی۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اعلیٰ عدالت سے ان نوجوانوں کو مکمل انصاف ملے گا، انشاء اللہ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے متعدد معاملے ہیں جن میں نچلی عدالتوں نے سزائیں دیں مگر جب وہ معاملہ اعلیٰ عدالت میں گئے تو مکمل انصاف ہوا۔ اس کی ایک بڑی مثال اکشر دھام مندر حملہ کا معاملہ ہے جس میں نچلی عدالتیں مفتی عبدالقیوم سمیت تین افراد کو پھانسی اور چار لوگوں کو عمرقید کی سزا دی تھی یہاں تک کہ گجرات ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلہ کو برقرار رکھا تھا لیکن جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امداد کے نتیجہ میں جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں گیا تو سارے لوگ نہ صرف باعزت بری ہوئے بلکہ بے گناہوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھانسنے پر عدالت نے گجرات پولیس کی سخت سرزنش بھی کی تھی۔
Published: undefined
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ اکثر معاملوں میں نچلی عدالتیں سخت فیصلہ دیتی ہیں لیکن سپریم کورٹ سے ملزمین کو راحت حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاملہ میں بھی سپریم کورٹ سے ان ملزمین کو جو 21 سال سے جیلوں میں بند ہیں راحت ملے گی۔ مولانا مدنی نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل نچلی عدالت اور ہائی کورٹ سے پھانسی کی سزا پانے والے گیارہ ملزمین کی پیروی جمعیۃ علماء ہند نے کی تھی اور ایک بھی ملزم کو پھانسی کی سزا نہیں ہونے دی گئی تھی۔ اسی طریقہ سے ہمیں امید ہے کہ ہم ان کو بھی عمر قید کی سزاؤں سے بچانے میں کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل اکشر دھام مندر مقدمہ میں تین افراد کو پھانسی کی سزا اور امریکن قونصلیٹ حملہ کے معاملہ میں سات لوگوں کو پھانسی کی سزا اور ممبئی کے ایک ملزم کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔ الحمدللہ جمعیۃ علماء ہند کی کامیاب پیروی سے سات ملزمین باعزت بری ہوئے جبکہ دو افراد کی سزاؤں کو سات سالوں میں تبدیل کر دیا گیا اور دو افراد کی سزاؤں کو پھانسی سے عمر قید میں تبدیل کیا گیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر سوشل میڈیا