الہ آباد / کوشامبی: ملک کے متعدد علاقوں بالخصوص گاؤں اور بستیوں میں بچہ مزدوری کو پوری طرح ختم کرنے کے لیے دوآبہ وکاس ایوم اتھان سمیتی نے کرائی (چائلڈ رائٹس اینڈ یو) کے ساتھ مل کر مہم چلائی ہے۔ اس سلسلہ میں تنظیم کی جانب سے لوگوں کو اس بات کے لیے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ بچوں کو ملازمت فراہم کر کے ان کی مدد نہ کریں! تنظیم نے بچہ مزدوری کے خلاف ضلع کوشامبی کے 5 بلاکوں کے 60 گاؤں میں بیداری کے ساتھ دستخط مہم بھی چلائی۔
Published: undefined
خیال رہے کہ ہندوستان میں بچہ مزدوری کے خلاف 1986 میں ہی قانون نافذ کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود اس پر پوری طرح سے روک نہیں لگ سکی ہے۔ سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں بچہ مزدوروں کی تعداد 43 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ ہے، جبکہ صرف اتر پردیش میں تقریباً 6 لاکھ بچوں سے مزدوری کرا کر ان کا بچپنا چھینا جا رہا ہے۔
Published: undefined
دوآبہ وکاس ایوم اتھان سمیتی کے جاری کردہ ایک پریس بیان کے مطابق بچہ مزدوری کے خلاف الہ آباد اور کوشامبی میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کرائی اور دوسری معاون تنظیمیں یوپی کے لکھنؤ، وارانسی، سون بھدر، بھدوہی، چندولی، لکھیم پور کھیری، بدایوں سمیت ملک کی 26 ریاستوں میں بچہ مزدوری کے خلاف اسی طرح کی مہم چلا رہی ہیں۔
Published: undefined
بچہ مزدوری کے خلاف چلائی جا رہی اس مہم کا مقصد سماج، عوامی نمائندگان، متعلقین، صحافیوں اور دیگر معززین کی ذہن سازی کرنا اور بچوں کو مزدوری سے نجات دلا کر انہیں تعلیم سے جوڑ کر ان کے حقوق کو یقینی بنانا ہے۔ تنظیم کے مطابق جب بچہ مزدوروں کے اہل خانہ سے بات کی گئی تو انہوں نے اس کے لیے اپنی غریبی کو تو ذمہ دار قرار دیا ہی، ساتھ مہنگی تعلیم پر بھی سوال اٹھائے۔
Published: undefined
اس مہم میں مقامی عوامی نمائندگان کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کر کے ان کی رائے لی گئی۔ رکن پارلیمنٹ ونود سونکر، رکن پارلیمنٹ ریتا بہوگنا جوشی، رکن پارلیمنٹ کیسری دیوی پٹیل، راجیہ سبھا کے رکن شمبھو شرن پٹیل اس مہم میں شامل ہوئے اور تنظیم کی جانب سے چلائی جا رہی دستخط مہم میں شرکت کی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز