نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آسام میں جاری شہریت تنازع سے متعلق تقریباً آدھا درجن عرضداشتوں پرسماعت کرتے ہوئے ’اصل مقیم‘ شہریت معاملے میں اپنافیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ جسٹس رنجن گوگوئی اورجسٹس روہنٹن نریمن کی بینچ کے سامنے گزشتہ روز جمعیۃ علما ہند، آل آسام مائینارٹی اسٹوڈنٹ یونین (آْمسو)، کانگریس کے سات ممبران اسمبلی اور آدی واسی اور بنگالی ہندوؤں کی جانب سے دائرعرضداشتوں پرکئی گھنٹے تک بحث ہوئی۔ آمسو کی پٹیشن پر جمعیۃ علماء ہند کے وکیل کپل سبل نے، کانگریس کے ممبران اسمبلی کی پٹیشن پرسلمان خورشید نے، دوآدیواسی عرضداشتوں پراندرا جے سنگھ اور بنگالی ہندؤں کی دوعرض داشتوں پر سنجے ہیگڑے نے بحث کی۔ بحث مکمل ہونے کے بعد بنچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور آسام حکومت دونوں کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ ریاست میں دو طرح کے شہری پیدا کئے جانے کی وجہ آخر کیا ہے۔
عدالت میں بحث کے دوران جمعیۃ کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ جب آسام میں این آرسی کا عمل چل رہا ہے تو اس میں صرف شہریت کی بنیاد پر ہی داخلہ ہوناچاہئے۔ جبکہ مخالفین اور حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں ’اصل مقیم‘ بھی ایک پروویجن ہے اور انہیں بغیر کسی دستاویز کے این آر سی میں شامل کیا جائے۔ جمعیۃ کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ طے تویہ ہونا ہے کہ کون شہری ہے اور کون نہیں ہے۔ شہری ثابت کرنے کے لئے دستاویزات پیش کرنے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شہری ہے تو اصل مقیم ہویا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ شہریت دستاویزات کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ دوسری جانب ’اصل مقیم‘ کے آپشن میں کسی دستاویز کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
عدالت میں بتایا گیا کہ جس وقت اصل مقیم کا قانون بنایا گیا تھااس وقت نیّت یہ تھی کہ جن آدیواسیوں کے پاس پہننے کوکپڑے تک نہیں ہیں ان کے پاس شہریت کے دستاویزات کہا ں ہوں گے۔ اس لئے ایسے لوگوں کی خاطر گنجائش نکالی گئی تھی۔ لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آسام میں جن سوا تین کروڑ افراد کی شہریت کلیئرہونی ہے ان میں سے دوکروڑکی شناخت ہوچکی ہے اوران دو کروڑ افراد میں تقریبا سواکروڑافراد اصل مقیم ہیں۔ جبکہ سترلاکھ افراد دستاویزات کی بنیاد پر شہری تسلیم کئے گئے ہیں۔
جمعیہ علما ء ہند نے اپنی عرضداشت میں یہ مطالبہ کیاتھا کہ ’اصل مقیم‘ کے تعلق سے گائیڈلائن واضح کی جائیں۔ عدالت میں حکومت ہند کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے اصل مقیم معاملے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق 1951 میں آئین ہند کے نفاذ کے وقت جو آسام کا شہری تھا اسے ’اصل مقیم تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ وہ عدالت کے سامنے یہ واضح نہیں کرسکے کہ اس بات کوکیسے ثابت کیا گیا کہ فلاں شخص 1951 کو بھی آسام کا شہری تھا۔ عدالت نے اس معاملے میں سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو آپ دوطرح کے شہری پیدا کررہے ہیں۔ آسام معاہدہ کی کٹ آف ڈیٹ1971ہے۔ ایسے میں شہری شہری میں فرق پیدا ہوجائے گا۔ آسام حکومت کے وکیل کے پاس عدالت کے اس سوال کاکوئی معقول جواب نہیں تھا۔ بنچ نے بحث مکمل کرانے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ عدالت کل حکومت کے اس مطالبہ پر غور کرے گی جس میں اس نے این آرسی کو مکمل کرنے کے آخری تاریخ 31 دسمبر 2017 سے بڑھا کرجولائی 2018 کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ میں اصل مقیم معاملہ میں ہوئی بحث اور اس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلئے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مولانامدنی نے کہا کہ عدالت نے بہت سنجیدگی سے سماعت کی اورہمارے وکلا نے اپنی بات دلائل کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش کی۔ عدالت نے آسام حکومت اورمرکزی حکومت کے وکلا سے سخت سوالات کئے اور ان کے جواب پر اپنی جانب سے سوال بھی اٹھائے۔ آسام سرکار کے وکیل گوئل بھی عدالت کے سامنے اطمینان بخش وضاحت کرنے میں ناکام رہے۔ مولانا مدنی نے امید ظاہر کی کہ انشاء اللہ اس معاملے میں خوش آئند فیصلہ سامنے آئے گا۔
بحث کے دوران جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ فضل ایوبی اور جمعیۃعلماء آسام کے صدرمولانا مشتاق عنفر بھی موجودتھے۔
Published: 30 Nov 2017, 11:26 AM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 30 Nov 2017, 11:26 AM IST