نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (اے آئی ایم ایم ایم) نے لاکمیشن آف انڈیا کو یکساں سول کوڈ (UCC) کے متعلق اس کے 14جون 2023 کے سرکلر پر خط لکھ کر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ یکساں سول کوڈ پر رائے طلب کرنے کی یہ کارروائی غیر ضروری، ایک خطرناک اور آئین کے بنیادی اصولوں کےمنافی قدم ہے۔ مشاورت نے مکتوب میں لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں لیا گیا ہے اور جواب دینے کے لیے وقت بھی بہت کم اور ناکافی رکھا گیا ہے۔ مشاورت نے یہ بھی کہا ہے کہ جب 21ویں لا کمیشن نے صاف صاف منع کر دیا تھا کہ یکساں سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب، تو اتنی جلدی حالات میں کیا تبدیلی آگئی کہ اس مسئلہ کو اس طرح چھیڑا گیا۔ ملک کے مسلمانوں کی وفاقی تنظیم نے کامن سول کوڈ (UCC) کے خیال پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اگر اس پر بات کرنا کمیشن کی نگاہ میں ضروری ہی ہے تو اس پر بحث کے لیے کم ازکم چھ ماہ کا وقت چاہیے کیونکہ یہ بہت ہی حساس اور سنجیدہ موضوعات کو محیط مسئلہ ہے۔ مشاورت نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس حساس اور نازک مسئلے میں سیاسی قیادت کی ہدایت پر ’’ہاں یا نہیں‘‘ کے فریم میں یہ کام جلد بازی میں نہیں کیا جا سکتا۔
Published: undefined
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے قومی صدر فیروز احمد ایڈوکیٹ کے دستخط سے لاکمیشن کے سکریٹری کے نام لکھے گئے اس مکتوب میں کمیشن کی توجہ چھ نکات پر مبذول کرائی گئی ہے۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ لاکمیشن کے متعلقہ اطلاع نامہ میں دلچسپی رکھنے والوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آپ کے نوٹس کے جاری ہونے کے 30 دنوں کے اندر یکساں سول کوڈ پر اپنی رائے بھیجیں۔ یہ سرکلر ایک خطرناک کارروائی، غیر ضروری نوعیت کا قدم اور آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ جلد بازی میں لیا گیا ہے اور جواب دینے کے لیے وقت کا دائرہ بھی بہت کم اور ناکافی رکھا گیا ہے۔
Published: undefined
مکتوب کے تیسرے نکتہ میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت لا کمیشن آف انڈیا سے جاننا چاہتی ہے کہ اس نےکس مینڈیٹ کے تحت یکساں سول کوڈ ( یو سی سی) کے اہم مسئلے پر ریفرنڈم کی یہ متنازعہ مشق شروع کی ہے۔ جبکہ 21 ویں لا کمیشن نے 2018 میں "خاندان کی اصلاح" کے عنوان سے اپنے مشاورتی دستاویز میں صفحہ 7 پر واضح طور پر کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب۔ مشاورت نے سوال اٹھایا ہے کہ ابھی تک حالات میں کوئی قابل ذکرتبدیلی نہیں آئی ہے، پھر کونسی ہڑبڑی ہے کہ یکساں سول کوڈ پر بحث چھیڑی گئی۔ اسی طرح اس نے ایک اور سوال اٹھایا ہے کہ اگر کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ اسے اس متنازعہ مسئلے پر بہرحال ازسرنو بات چیت کرنے کی ضرورت ہے تو اس مشق کے لیے ایک تفصیلی بحث/ تبادلہ خیال کیوں نہیں کراتا، کیونکہ سیاسی قیادت کی ہدایت پر ’’ہاں یا نہیں‘‘ کے فریم میں یہ کام جلد بازی میں نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسئلہ کے فریقوں کو اپنے خیالات پیش کرنے کے لیے واقعتاً زیادہ وقت درکار ہے جو 6 ماہ سے کم نہیں ہونا چاہیے۔
Published: undefined
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (AIMMM) نے یہ بھی لکھا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا خیال عام طور پر ریاست اور شہریوں اور بالخصوص ریاست اور نسلی و مذہبی گروہوں کے درمیان تعلقات پر ایک بڑی بحث کو جنم دیتا ہے۔ یہ اس بارے میں بھی بڑے سوالات اٹھاتا ہے کہ ریاست کس حد تک ریاست کے منظور شدہ آدرشوں تک جا سکتی ہے اور 'مین اسٹریم کا حصہ بننے کے لیے الگ الگ شناختوں کو کتنا چھوڑ سکتی ہے۔ یہ ہندوستان جیسے ملک میں اختلاف رائے کو ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت کے بارے میں بھی سوال اٹھاتا ہے۔ نسلی گروہوں، قبائل اور مذہبی اقلیتوں کی مخالفت ظاہر کرتی ہے کہ یکساں سول کوڈ (UCC) پر کسی بھی بحث کو، اگر ضروری ہو تو معاشرے میں عدم مساوات اور ہم آہنگی کے بڑے سوالات کو سامنے رکھنا ہوگا اور اس طرح کے گہرے اور کثیرالجہات مسائل کو حل کرنے کے لیے زیادہ بڑے ٹائم فریم کی ضرورت ہے جبکہ 14جون 2023 کے نوٹس کے ذریعے لا کمیشن کی طرف سے دیا گیا وقت بہت کم ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (AIMMM) نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اس نوٹس پر ایک تفصیلی رائے بعد میں بھیجے گی اور امید کرتی ہے کہ اس کے معروضات کو سنجیدگی سے لیا اور اس کے مطالبے کا مثبت جواب جلد ازجلد دیا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined