سیاسی

کھٹر استعفیٰ دیں، وزیر اعظم جواب دیں

کھٹر استعفی دیں اوروزیر اعظم جواب دیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

ایک شور ہے، ایک ہنگامہ بپا ہے اور تمام ٹی وی چینلوں پر بس ایک ہی آواز سنائی پڑتی ہے اور وہ آواز ہے کہ آخر جب ہریانہ جل رہا تھا تو کیا وزیر اعلیٰ ہریانہ منوہر لال کھٹر سو رہے تھے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جو ٹی وی چینل اس شور میں سب سے آگے ہیں وہ ہیں انڈیا ٹی وی (ہندی)، ریپبلک (انگریزی)، ٹائمس ناؤ (انگریزی)۔ لیکن یہ تینوں چینل ایک آواز میں رام رحیم کی گرفتاری کے بعد ہونے والی تمام ہنگامہ آرائی کا ذمہ دار محض منوہر لال کھٹر کو ٹھہرا رہے ہیں۔

اس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رام رحیم کی گرفتاری کے بعد سرسا اور دوسری جگہوں پر اورجس طرح ہریانہ میں جنگل راج پھیل گیا اس کی سب سے پہلی اور بڑی ذمہ داری کسی کی ہو سکتی ہے تو وہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی ہی ہو سکتی ہے جو اس وقت منوہر لال کھٹر ہیں۔

آخر 30 سے زیادہ افراد مر چکے ہیں، چنڈی گڑھ (جہاں رام رحیم کو عدالت کے سامنے حاضر ہونا تھا) میں عام لوگوں کو یہ اندازہ تھا کہ شہر میں حالات بے حد بگڑ سکتے ہیں، وہ چنڈی گڑھ چھوڑ کر ہجرت کر رہے تھے۔ اگر اس بات کا اندازہ نہیں تھا تو وہ منوہر لال کھٹر کو تھا۔ آخر یہ کیسے وزیر اعلیٰ ہیں جنھوں نے لاکھوں لوگوں کو چنڈی گڑھ اور سرسا میں جمع ہونے دیا۔ صوبہ اور مرکز کی ایجنسیاں حکومت کو یہ آ گاہ کر رہی تھیں کہ اگر رام رحیم کو سزا ہوئی تو حالات بے قابو ہو جائیں گے۔ آخر ہوا بھی یہی۔ ظاہر ہے کہ اس غفلت کے ذمہ دار منوہر لال کھٹر ہی ہیں اور اس کے لیے ان کو سزا ہونی ہی چاہیے اور ان کو ملنی بھی چاہیے۔ یعنی منوہر لال کھٹر فوراً ہی استعفیٰ دیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ہریانہ، پنجاب، راجستھان، دہلی اور اتر پردیش کو ملا کر پانچ ریاستوں میں رام رحیم کے ماننے والوں نے جس طرح کی ہنگامہ آرائی کی کیا اس کے ذمہ دار محض منوہر لال کھٹر ہیں۔ آخر منوہر لال کھٹر کا رویہ ڈیرا سچا سودا اور اس کے رہنما کی جانب اس قدر نرم کیوں تھا؟ جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملتا تب تک یہ راز نہیں کھلے گا کہ منوہر لال کھٹر تمام ایجنسیوں کی خبروں کے باوجود رام رحیم اور ڈیرا سچا سودا کے تئیں اس قدر نرم رویہ کیوں برت رہے تھے۔

اس سوال کا جواب سمجھنے سے قبل یہ سمجھنا لازمی ہے کہ ڈیرا سچا سودا کی سیاسی اہمیت کیا ہے؟ ڈیرا سچا سودا محض دلت سکھوں کا ایک اہم مرکز ہی نہیں بلکہ اس کی مٹھی میں دلت سکھوں کا ایک بہت بڑا ووٹ بینک بھی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جس کے گرو رام رحیم کی ایک آواز پر اس کے ماننے والے پولس کی گولیاں کھا کر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہوں، بھلا اس کے اشارے پر وہ ووٹ ڈالیں گے کہ نہیں۔

بس یہی راز ہے ڈیرا سچا سودا کی بے پناہ طاقت کا۔ تب ہی تو ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی جی نے بنفس نفیس ڈیرا سچا سودا کی تعریف سنہ 2014 کے ایک انتخابی میٹنگ میں خود بھی کی تھی۔ ملاحظہ فرمائیے مودی نے سنہ 2014 میں ہریانہ کی ایک الیکشن میٹنگ میں کیا کہا تھا— ’’مجھے ڈیرا سچا سودا کی دھرتی کو بھی پرنام کرنے کا اَوسر ملا۔ میں نے ڈیرا سچا سودا کے لوگوں کو دیکھا ہے۔ وہ صفائی کا کام اتنا زبردست کرتے ہیں، میں برسوں سے دیکھ رہا ہوں، گاؤں گاؤں جا کر (صفائی) کام کرتے ہیں۔‘‘

Published: 26 Aug 2017, 12:00 PM IST

اگر وزیر اعظم الیکشن ریلی میں کھلے لفظوں ڈیرا سچا سودا کی تعریف کر رہے تھے تو وہ یوں ہی نہیں کر رہے تھے۔ یہ خبر عام ہے کہ سنہ 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں ڈیرا سچا سودا کے بابا رام رحیم نے اپنے ماننے والوں کو یہ حکم نامہ جاری کیا تھا کہ وہ لوک سبھا انتخابات اور ہریانہ اسمبلی انتخابات دونوں میں بی جے پی کو ووٹ دیں۔ اور انتخابات میں یہی ہوا جس کا اندازہ آپ ہریانہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے نتائج سے لگا سکتے ہیں۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ اس سے قبل انتخابات میں رام رحیم نے کانگریس کو بھی ووٹ ڈلوائے تھے۔

ظاہر ہے کہ جس منوہر لال کھٹر نے سچا سودا کی حمایت سے گدی حاصل کی ہو وہ بھلا رام رحیم یا ان کے ماننے والوں کے خلاف کوئی سخت قدم کیسے اٹھا سکتا تھا۔ مگر ٹھہریے جس وقت سنہ 2014 کا لوک سبھا اور ہریانہ اسمبلی کی انتخابی مہم چل رہی تھی اس وقت بی جے پی حلقوں کے باہر کسی نے منوہر لال کھٹر کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ یعنی اس وقت سچا سودا کے ووٹ بینک کا جو بھی سمجھوتہ ہوا ہوگا اس میں نریندر مودی کی مرضی یقینا شامل رہی ہوگی۔ تب ہی تو سرسا کی پبلک میٹنگ میں انھوں نے خود کھڑے ہو کر ڈیرا سچا سودا کی تعریف کی!

اب آپ کی سمجھ میں آیا کہ انڈیا ٹی وی، ریپبلک اور ٹائمس ناؤ جیسے بی جے پی حامی ٹی وی چینل محض منوہر لال کھٹر کے خلاف شور کیوں مچا رہے ہیں۔ آخر ان چینلس پر مودی جی کے خلاف کوئی آواز کیوں نہیں سنائی پڑ رہی ہے جب کہ مودی جی کی اس تقریر کا کلپ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔

ہریانہ اور دیگر مقام پر رام رحیم کی گرفتاری کے بعد جو ہنگامہ آرائی ہوئی، پہلی ذمہ داری یقینا ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کی ہے اور اصولاً ان کو استعفیٰ بھی دینا چاہیے۔ لیکن جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 لوک سبھا انتخاات اور ہریانہ اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے ڈیرا سچا سودا کے ساتھ مل کر دلت سکھوں کے ووٹ بینک کی سیاست کی، کیا اس کے لیے خود مودی ذمہ دار نہیں ہیں! اور اگر وہ ذمہ دار ہیں تو ان کی کوئی سزا ہے کہ نہیں۔ منوہر لال کھٹر کا استعفیٰ ہونا ہی چاہیے لیکن ساتھ ہی مودی کو کم از کم ہریانہ کے لوگوں سے اپنی غلطی کی معافی مانگنی چاہیے کیونکہ انھوں نے بھی رام رحیم کو سر چڑھایا تھا۔

Published: 26 Aug 2017, 12:00 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 26 Aug 2017, 12:00 PM IST