وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر کھلے من سے یہ اعلان کیا ہے کہ ’’عقیدے کی آڑ میں تشدد قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اتوار کے روزوزیر اعظم نے ’من کی بات‘ ریڈیو پروگرام کے ذریعہ ملک سے خطاب کرتے ہوئے لال قلعہ کی اپنی تقریر کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’میں اس تقریر میں یہ کہہ چکا ہوں کہ عقیدے کے نام پر تشدد برداشت نہیں ہوگا اور میں پھر یہ اعلان کر رہا ہوں کہ مذہب، ذات اور شخصیت کے نام پر کسی قسم کا تشدد نہیں برداشت کیا جائے گا۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس اعلان کے پس منظر میں مودی جی کے ذہن میں رام رحیم کی گرفتاری کے بعد ہریانہ اور دیگر جگہوں پر ہونے والا تشدد تھا۔ رام رحیم کی گرفتاری کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد وزیر اعظم کے اس بیان کا جتنا بھی خیر مقدم ہو کم ہے۔ جیسا کہ مودی جی نے فرمایا کہ ہندوستان ہی نہیں کوئی بھی جدید ریاست اس قسم کا تشدد برداشت نہیں کر سکتی ہے۔
بجا، جدید ریاست کا تصور ہی اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ وہ ’عقیدے اور ریاست‘ کو ایک دوسرے سے الگ رکھتے ہیں۔ لیکن اگر اس اصول کو تسلیم کیا جائے تو کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہندوتوا نظریہ کسی جدید ریاست کی نظریاتی بنیاد ہو سکتا ہے! ہندوتوا ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جو اکثریتی فرقہ کو دوسرے طبقوں پر فوقیت بخشتا ہے۔ ’ایک راشٹر، ایک کلچر ، ایک زبان اور ایک قانون‘ کی بنیاد اقلیتوں کو کوئی جگہ نہیں عطا کرتی ہے۔
جب ایک سیاسی جماعت ایسے نظریہ کے تحت ملک کی نشو و نما کرے گی تو ظاہر ہے کہ اس جماعت کے ماننے والوں کے دل و دماغ میں اقلیت کا عقیدہ اور اس عقیدے میں یقین رکھنے والے دشمن کا درجہ رکھیں گے ۔جس سے ان کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت پیدا ہوگی۔ اور جب کسی دوسرے عقیدے کے خلاف نفرت کا بیج موجود ہوگا تو وہ نفرت کبھی موب لنچنگ کی شکل اختیار کرے گی اور کبھی لو جہاد کی صورت میں ظاہر ہوگی۔ جب یہی نفرت انتہا سے زیادہ بڑھ جائے گی تو یہ گجرات فسادات کی شکل یا رام رحیم کی گرفتاری کے بعد ہونے والے تشدد کی شکل میں ظاہر ہوگی اور پھر اس نفرت کے سیلاب کو روکنا مشکل ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ جس روز اپنے ریڈیو پروگرام کے ذریعہ وزیر اعظم ملک کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ’ عقیدے کی آڑ میں تشدد برداشت نہیں ہوگا‘، اسی روز بنگال سے یہ خبر آ رہی تھی کہ وہاں اقلیتی فرقے کے دو افراد موب لنچنگ کی نذر ہو گئے۔
اس لیے اب عقیدے کی آڑ میں ہونے والا تشدد محض تقریروں سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر حکومت چاہے تو تشدد رُک نہیں سکتا ہے۔ رام رحیم کے معاملے میں ہریانہ حکومت کا رویہ گرفتاری کے روز نرم رہا تو تشدد پانچ ریاستوں میں پھیل گیا۔ اس کے دو روز بعد جب رام رحیم کو عدالت نے دس برسوں کی سزا سنائی تو کہیں چوں بھی نہیں ہوئی۔ یعنی اگر حکومت وقت یہ عزم کر لے کہ وہ عقیدے کے نام پر نفرت کی آگ کو پھیلنے نہیں دے گی تو تشدد پر فوراً روک لگائی جا سکتی ہے۔ اگر حکومت کی یہ نیت نہیں ہوگی تو وزیر اعظم کی اس سلسلے میں تنبیہ محض زبانی جمع خرچ تک ہی محدود رہے گی۔
وزیر اعظم نے عقیدے کی آڑ میں ہونے والے تشدد کو روکنے کے سلسلے میں جس عزم کا اظہار کیا ہے اس پر شک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن رام رحیم کی گرفتاری کے بعد محض ہریانہ حکومت یا دوسری حکومتیں چند ایسے سخت اقدامات اٹھا لیں جن سے کچھ عرصے کے لیے مذہبی تشددتو ضرور رک سکتا ہے۔ لیکن جب تک نظریاتی سطح پر مذہبی تشدد کو نہیں ختم کیا جاتا ہے تب تک چند روز کے اندر پھر ملک کے کسی نہ کسی کونے سے موب لنچنگ جیسے کسی واقعہ کی ایک اور خبر آتی رہے گی جو عقیدے کی آڑ میں تشدد کا ایک اور بھیانک چہرہ ہے۔
ہندوستان کو اب ایمانداری سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عقیدے اور حکومت کو ایک دوسرے سے الگ کر ملک کو ایک جدید ہندوستان بنا سکے ۔ اور یہ فیصلہ وزیر اعظم کو ہی لینا ہوگا۔ اگر وہ اس کے لیے تیار ہیں تو ان کو سب سے پہلے ہندوتوا جیسے نفرت انگیز نظریہ پر روک لگانی ہوگی۔ اگر وزیر اعظم اس کے لیے نہیں تیار تو پھر ان کی تقریر کے باوجود کل کوئی دوسرا رام رحیم یا کوئی دوسری موب لنچنگ سر اٹھاتی رہے گی۔
اس لیے مودی جی، اب تقریر نہیں عقیدے کے نام پر تشدد کو روکنے کے لیے عمل کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہر قسم کی نفرت پر روک لگانی ہوگی۔خواہ وہ ہندوتوانظریہ ہی کیوں نہ ہو!
Published: 28 Aug 2017, 6:56 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Aug 2017, 6:56 PM IST
تصویر: پریس ریلیز