آخر لالو پرساد یادو چارہ گھوٹالے میں مجرم قرار دے ہی دیے گئے۔ لیکن کیا یہ فیصلہ لالو یادو کے سیاسی سفر کی شام ہے! یوں تو سیاست میں کوئی کچھ نہیں جانتا کہ کل کیا ہو! لیکن آثار یہی ہیں کہ لالو کا سیاسی سفر اب خاتمے پر ہے، کیونکہ لالو پرساد یادو بیک وقت دو جنگیں لڑ رہا ہے۔ لالو کی پہلی جنگ قانونی جنگ ہے جو چارہ گھوٹالے کی شکل میں اس کو برسوں لڑنی پڑی۔ وہ کئی بار جیل گئے۔ بہارکے وزیر اعلیٰ کا عہدہ ہاتھ سے جاتا رہا اور آخر عدالت نے لالو پر الیکشن لڑنے پر بھی پابندی لگا دی، اور اختتام اس بات پر ہوا کہ آخر لالو مجرم قرار پائے۔ یہ تو تھی لالو کی پہلی جنگ جو عدالت میں ہار گئے۔ وہ ابھی اعلیٰ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے لیکن عدالتوں کا رویہ لالو کے تئیں شروع سے ہی سخت رہا ہے۔ اس لیے قانونی جنگ میں لالو کے لیے کوئی زیادہ امید نہیں ہے۔
لالوپرساد یادو کی دوسری جنگ سیاسی و سماجی جنگ ہے جو وہ ایک پسماندہ ذات لیڈر کی حیثیت سے اعلیٰ ذات ہندو نظام کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی انتہائی خطرناک لڑائی ہے جو منڈل کمیشن سفارشات لاگو ہونے کے بعد سے انھوں نے اپنے سر لی ہے۔ وہ پسماندہ ذاتوں کے پہلے لیڈر ہیں جو اقتدار میں رہ کر ’سماجی انصاف‘ کی لڑائی لڑتے رہے۔ انھوں نے سیکولرزم کے معاملے میں کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ بہار کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے جن کے دور حکومت میں کوئی مسلم مخالف بڑا فساد نہیں ہوا۔ سنہ 1990 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے جنونی دور میں بھی لالو کے زیر سایہ ایک مسلمان کی جان نہیں گئی۔
لالو پرساد کی یہ لڑائی ہندو اعلیٰ ذات نظام کے اس دور کے سربراہ سنگھ اور بی جے پی کے خلاف ہے۔ اس جنگ میں پہلے تو لالو پرساد حاوی رہے۔ انھوں نے لال کرشن اڈوانی کو رتھ یاترا کے دوران گرفتار کر اس دور کے ہندوتوا ہیرو کو جیل بھیجا۔ لیکن آخر اعلیٰ ذات نظام نے ان کو چاروں طرف سے گھیر میں لیا۔ پچھلے کچھ برسوں میں نتیش کمار کے ساتھ ایک قلیل مدت کے لیے بہار کے اقتدار پر ان کی حصے داری تو بنی لیکن اس دوران وہ کبھی جیل میں رہے یا مقدمہ لڑتے رہے یا پھر بدعنوانی کے نئے الزام سے نبرد آزما ہوتے رہے۔ اور آخر اعلیٰ ذات نظام نے ان کو زیر کر لیا ہے۔
لالو کی عمر ہو چکی ہے۔ وہ 70 کے پیٹے میں ہیں۔ کبھی جیل تو کبھی سی بی آئی اور انکم ٹیکس افسران کا دو دو دن لگاتار سامنا کرنے کے بعد نہ تو لالو پرساد کے پاس نظام سے لڑنے کا وقت ہوگا اور نہ ہی قوت۔ ان حالات میں چارہ گھوٹالے میں سزا کے بعد لالو پرساد کا سیاسی سفر اب ختم ہوتا ہی نظر آتا ہے۔
لالو پرساد یادو کبھی انقلابی نہیں رہے۔ وہ پسماندہ ذاتوں اور مسلمانوں کے سچے دل سے خیر خواہ رہے اور آخر اسی کی سزا ان کو بھگتنی پڑی۔ انھوں نے ہمیشہ اقتدار کی سیاست کی اور جرأت کے ساتھ سماجی نظام کے خلاف کھڑے رہے۔ لالو ہندوستانی جمہوریت کا ایک عظیم الشان تحفہ ہیں جن کو ہندوستان کی تاریخ کبھی بھلا نہیں سکے گی۔ لالو جیل میں رہیں یا جیل کے باہر، وہ سیاسی میدان میں ہوں یا سیاست سے باہر، لالو غریبوں کے مسیحا کے طور پر ہمیشہ زندہ و پائندہ رہیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز