مودی حکومت عالمی بینک کی رپورٹ ’ڈوئنگ بزنس 2018: ریفارمنگ ٹو کریئٹ جابس‘ کے 190 ممالک میں 100 مقام پر آنا بڑی کامیابی مان رہی ہے۔ سوشل نیٹورک پر بھی بی جے پی حامی کہہ رہے ہیں کہ اب تو معیشت کو کوسنے والے خاموش ہو جائیں گے۔ پوری رپورٹ اگر آپ دیکھیں تو پائیں گے کہ اس رپورٹ کا معیشت سے کوئی مطلب نہیں ہے اور یہ بنیادی طور پر ملکوں کے روزگار فراہم کرنے کی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لیے بنی ہے۔ حیرانی تو یہ ہے کہ دیگر اداروں کے کچھ انڈیکس میں روزگار دینے سے متعلق امور میں اس سے بہتر مقام پر ہمارے ملک کا نام ہے، لیکن ان کا کسی نے بھی تذکرہ نہیں کیا۔ 100ویں مقام پر آنے کے بعد بھی اس رپورٹ کو حکومت کی حصولیابی اس لیے تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ عالمی بینک کی رپورٹ ہے۔
عالمی بینک کی اس رپورٹ میں 190 ممالک میں تجارت سے متعلق انتظامات کی تفصیلات ہیں۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس رپورٹ سے یہ نہیں بتایا جا سکتا ہے کہ بیرون ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا یا بیرون ملکی کمپنیاں ہندوستان کا رخ کریں گی۔
رپورٹ میں واضح لفظوں میں لکھا گیا ہے کہ ’’عالمی بینک کے ملازمین نے باہری لوگوں سے مدد لے کر اس رپورٹ کو تیار کیا ہے۔ اس کی تحقیق، تجزیہ اور نتائج ضروری نہیں ہے کہ عالمی بینک، اس کے ورکنگ ڈائریکٹر بورڈ یا وہ جس کے نمائندہ ہیں، ان کے خیالات ہوں۔ اس رپورٹ میں جو اعداد و شمار ہیں ان کے درست ہونے کی ذمہ داری ورلڈ بینک نہیں لیتا ہے۔‘‘ ورلڈ بینک کے ملازمین کے علاوہ مختلف ممالک کے 13000 سے زیادہ ماہرین نے اس رپورٹ کے لیے کام کیا ہے۔ لیکن سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ عالمی بینک اعداد و شمار یا نتائج کی ذمہ داری سے کیوں الگ ہے؟
رپورٹ صرف دہلی اور ممبئی کے اعداد و شمار یا جانکاریوں پر پورے ملک کا مقام متعین کرتی ہے۔ دونوں شہروں میں 53 فیصد ترجیح دہلی کو اور 47 فیصد ممبئی کو ملی ہے۔ اس معاملے میں دہلی میں اگر تجارت کرنا آسان ہوا ہے تو عام آدمی پارٹی کو سہرا ملنا چاہیے۔ لیکن کیا کسی بی جے پی لیڈر یا ترجمان سے یہ سننے کو ملا؟ ہندوستان 30 مقام اوپر آ گیا لیکن کیا کسی کو پتہ ہے بھوٹان 75ویں مقام پر ہے، چین 78ویں مقام پر ہے اور نیپال و سری لنکا بھی 105ویں اور 111ویں مقام پر ہیں جو ہمارے ملک سے بہت نیچے نہیں ہے۔
روی شنکر پرساد نے رپورٹ کا حوالہ دے کر کہا کہ ان کی حکومت نے سہل بدعنوانی کو سہل کاروبار میں بدل دیا۔ رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اسے بنانے میں معاشی استحکام، معاشی نظام کی ترقی، تجارتی ماحول، بازار کا سائز، رشوت خوری اور روزگار یا مزدوروں کی صلاحیت کا اندازہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ’’ڈوئنگ بزنس کسی قانون یا ضابطہ کا پورے سماج پر اثر کا اندازہ نہیں کرتا۔‘‘
برونئی، دارالسلام، تھائی لینڈ، ملاوی، کوسوو، ہندوستان، ازبکستان، زامبیا، نائیجیریا، زبوٹی اور السلواڈور... یہ دس ملک ایسے ہیں جنھیں رپورٹ میں سب سے زیادہ سدھار والا بتایا گیا ہے۔ رپورٹ دس پیمانوں کی بنیاد پر بنائی گئی ہے- کاروبار شروع کرنا، کنسٹرکشن پرمٹ حاصل کرنا، بجلی کا کنکشن لینا، پراپرٹی کا رجسٹریشن، قرض لینا، چھوٹے سرمایہ کاروں کو مدد، ٹیکس ادا کرنا، سرحد پار تجارت، کانٹریکٹ لاگو کرنا اور دیوالیہ کے وقت مدد۔ ہندوستان کنسٹرکشن پرمٹ میں 181ویں مقام پر، کانٹریکٹ لاگو کرنے میں 164ویں مقام پر، کاروبار شروع کرنے میں 156ویں مقام پر، پراپرٹی کے رجسٹریشن میں 154ویں مقام پر اور سرحد پار کاروبار میں 146ویں مقام پر ہے۔
اس رپورٹ میں ہندوستان کے اوپر ایک سروے کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ یہاں لائسنس میں خامیوں اور کاروبار کے سائز پر توجہ نہ دینے کے سبب وسائل کی یکساں تقسیم نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے کئی اہل ادارے بند ہونے کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور جو بازار میں رہتے ہیں وہ اہل نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم بار بار اس رپورٹ کو لے کر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں۔ مکیش امبانی جب ایشیا کے سب سے امیر شخص بنتے ہیں تب وہ بتاتے ہیں کہ ایس ایم ای سیکٹر میں بہت خوشحال ہوئی۔ وزیر اعظم کو اگر ملک کی خوشحالی اور خوشحالی مباحثہ کرنا ہے تو گلوبل ہنگر انڈیکس پر بھی مباحثہ کرتے۔
اتنا تو یقینی ہے کہ زیادہ تر لیڈر اور لوگ جو اس رپورٹ پر اتنا جشن منا رہے ہیں یا خوش ہو رہے ہیں انھوں نے پوری رپورٹ کو پڑھا ہی نہیں۔ پوری رپورٹ پڑھنے کے بعد تعریف کرنے کے لائق کچھ ملتا ہی نہیں۔
Published: 03 Nov 2017, 9:56 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 Nov 2017, 9:56 PM IST
تصویر: پریس ریلیز