حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے حزب اقتدار میں بھی سیاسی سرگرمی پیدا کر دی ہے اور حزب اختلاف میں بھی۔ کانگریس کے 84 ویں مکمل اجلاس نے ان سرگرمیوں کو مہمیز لگا دی ہے۔ انتخابی نتائج نے جہاں یہ بات واضح کر دی ہے کہ بی جے پی یا نریندر مودی ناقابل تسخیر نہیں ہیں اور اگر حکمت عملی سے کام لیا جائے تو انھیں شکست فاش دی جا سکتی ہے وہیں کانگریس اجلاس میں پارٹی صدر راہل گاندھی، سابق صدر سونیا گاندھی، سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور متعدد رہنماؤں کی تقریروں نے قومی ایشوز پر مودی حکومت کی قلعی کھول دی ہے۔
اب جو نئی سرگرمی شروع ہوئی ہے اس کے دو خاص پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ این ڈی اے کی کئی حلیف جماعتیں اب اسے ایک ڈوبتا جہاز تصور کرنے لگی ہیں۔ لہٰذا انھیں کود کر بھاگ جانے کے لیے موقع کا انتظار ہے۔ سب سے بڑی حلیف جماعت ٹی ڈی پی تو چھلانگ لگا چکی ہے۔ سیاسی موسم کے ماہر رام ولاس پاسوان نے بھی اشارے دینے شروع کر دیے ہیں۔ شیو سینا تو پہلے سے ہی ہاتھ دھو کر بی جے پی کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور اس نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں اس کی نشستیں گھٹ کر 100 اور 110 کے درمیان رہ جائیں گی۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار بھی رنگ بدلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ اور بھی ہلکی پھلکی اختلافی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جو توقع ہے کہ مناسب وقت پر اور تیز ہو جائیں گی۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں میں ایک اتحاد قائم کرنے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ گورکھپور اور پھولپور میں اتحاد کے نتیجے نے ان کے حوصلے بلند کر دیے ہیں۔ کم از کم یو پی میں اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایس پی اور بی ایس پی اپنے سیاسی وجود کی بقا کے لیے اس اتحاد کو جاری رکھیں گی۔ اکھلیش یادو سے شرد یادو کی ملاقات بھی اتحاد کے سلسلے میں اہم مانی جا رہی ہے۔ بہار میں بھی بدلاؤ کا سماں ہے۔ جیتن رام مانجھی این ڈی اے چھوڑ کر آر جے ڈی کے قریب آگئے ہیں۔ ادھر ترنمول کانگریس کی لیڈر ممتا بنرجی اور ٹی ایس آر کے لیڈر چندر شیکھر راؤ نے بھی حکومت کے خلاف محاذ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گویا حکومت کے خلاف ایک پلیٹ فارم تیار ہو رہا ہے اور اگر اپوزیشن جماعتوں نے ہوشمندی سے کام لیا تو 2019 میں حیرت انگیز نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
لیکن سیاست میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھار بہت زیادہ جوش و خروش میں غلط قدم بھی اٹھ جاتے ہیں۔ لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں جوش میں آنے کے بجائے ہوش سے کام لیں اور بی جے پی، نریندر مودی اور امت شاہ اینڈ کمپنی کو کمزور نہ سمجھیں۔ یہ بات دنیا جانتی ہے کہ یہ لوگ الیکشن جیتنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ بات بار بار کہی گئی ہے جو کہ سو فیصد سچ بھی ہے کہ اپوزیشن کا انتشار بی جے پی کے لیے آب حیات بن جاتا ہے۔ 2014کے پارلیمانی الیکشن میں یہی ہوا تھا۔ تمام اپوزیشن جماعتیں الگ الگ لڑ رہی تھیں اور ایک فیکٹر اینٹی انکمبنسی کا بھی تھا۔ بی جے پی نے کرپشن کے معاملے میں ایسا پروپیگنڈہ کیا تھا کہ عوام اس کے جھانسے میں آگئے۔ بی جے پی کو صرف 33فیصد ووٹ ملے تھے اور وہ تاریخی کامیابی سے ہمکنار ہو گئی تھی۔
اس لیے اس بار بھی یہی سب کچھ ہوگا اگر اپوزیشن نے ہوش سے کام نہیں لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ مدہوشی کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ کچھ دنوں قبل سی پی آئی ایم میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا جائے یا نہیں۔ جہاں سیتا رام یچوری اتحاد کے حق میں تھے وہیں پرکاش کرات اس کے خلاف تھے۔ اب ممتا بنرجی اور چندر شیکھر راؤ نے تیسرے محاذ کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ ان سے پہلے مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی نے تیسرے محاذ کا راگ چھیڑا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ علاقائی جماعتیں جہاں بی جے پی سے خوف زدہ ہیں وہیں وہ کانگریس سے بھی ڈری ہوئی ہیں۔ حالانکہ یہ ا س کا موقع نہیں ہے کہ وہ اپنی اپنی اناؤں کی تسکین کے جتن کریں۔ بلکہ 2019میں بی جے پی کو کیسے شکست سے دوچار کیا جائے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ممتا بنرجی اور چندر شیکھر راؤ جیسے تجربہ کار سیاست دانوں سے اس کی امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ تیسرے محاذ کا قیام کرکے بی جے پی کی فتح کا راستہ ہموار کر دیں۔
ان کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اس وقت اگر حکومت اور بی جے پی کی غلط پالیسیوں کے خلاف کھل کر اور جارحانہ انداز میں کوئی بول رہا ہے تو وہ کانگریس صدر راہل گاندھی ہیں۔ انھوں نے مودی اور دوسرے بھاجپائی لیڈروں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ان کا ملک گیر دورہ بی جے پی کے خلاف ماحول سازی میں بہت زیادہ معاون ہے۔ حکومت کے غلط فیصلوں کے خلاف خواہ وہ رافیل کا سودہ ہو یا نوٹ بندی یا پھر جی ایس ٹی اور دوسرے عوام مخالف اقدامات، ان کی قلعی اگر کوئی کھول رہا ہے تو وہ راہل گاندھی ہیں۔ اس لیے ممتا بنرجی، چندر شیکھر راؤ، شرد یادو، شرد پوار، اسد الدین اویسی، چندر بابو نائڈو، کروناندھی، اسٹالن، بدر الدین اجمل، پرکاش کرات، جے بی پٹنائک، اکھلیش یادو، مایاوتی، ڈاکٹر محمد ایوب او ران تمام رہنماؤں کو جو اس وقت کانگریس سے دور ہیں کانگریس کے قریب آئیں اور اس کے ساتھ مل کر ایک محاذ قائم کریں۔ کیونکہ ایک عظیم اتحاد کے بغیر بی جے پی کو شکست نہیں دی جا سکتی۔
اس وقت اگر چہ ایسا لگ رہا ہو کہ بی جے پی کا جیتنا آسان نہیں ہے لیکن جب وقت آئے گا تو جوڑ توڑ کی اپنی صلاحیتیں استعمال کرکے وہ اپوزیشن کو بکھیر دے گی۔ ممتا وغیرہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر تیسرا محاذ بنا تو سیکولر ووٹ ایک بار پھر بٹ جائے اور ا س کا فائدہ بی جے پی اٹھائے گی۔ کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے جس طرح اپوزیشن لیڈروں کو عشائیے پر دو دو بار بلایا اسی طرح یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہنا چاہیے۔ کانگریس پارٹی کو بھی چاہیے کہ وہ اپوزیشن رہنماؤں کو اپنے قریب لانے کی مزید کوشش کرے اور انھیں اس بات پر قائل کرے کہ اگر بی جے پی کو ہرانا اور اپنا سیاسی مستقبل بچانا ہے تو انھیں بٹنے کے بجائے جڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ بی جے پی صرف کانگریس کو ہی نہیں بلکہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو سیاسی مطلع سے صاف کر دینا چاہتی ہے۔ خطرہ اس بات کا ہے کہ اگر تیسرا محاذ بنا تو بی جے پی پھر جیت جائے گی۔ اپوزیشن لیڈروں کی ایسی کوئی بھی کوشش سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر @RahulGandhi