سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ سوال آہستگی کے ساتھ اٹھنے لگا ہے کہ کیا آگے چل کر راج ناتھ سنگھ اور امت شاہ میں ٹکراؤ ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا، کیا راج ناتھ سنگھ امت شاہ اور نریندر مودی دونوں کے لیے دردِ سر بنیں گے یا ایسے کسی ممکنہ ٹکراؤ میں مات کھا جائیں گے۔ اگر چہ یہ سوال ابھی قبل از وقت سمجھا جا رہا ہے لیکن اسے بعض حلقے خارج از امکان بھی تصور نہیں کرتے۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
جب نریندر مودی کی دوسری مدت کے لیے حلف برداری ہونے والی تھی اور یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ بی جے پی صدر امت شاہ کو بھی مرکزی کابینہ میں لیا جا رہا ہے تو اسی وقت یہ سوال اٹھنے لگا تھا کہ اب مودی حکومت میں دوسرے نمبر کی کرسی پر کون فائز ہوگا۔ کیا راج ناتھ سنگھ اب بھی دوسری پوزیشن کے مالک بنے رہیں گے یا پھر وہ اپنی پوزیشن امت شاہ کے ہاتھوں گنوا دیں گے؟
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
اس وقت سیاسی و صحافتی حلقے اس پر نظر گڑاے ہوئے تھے کہ دیکھیں مودی کے فوراً بعد کس کی حلف برداری ہوتی ہے۔ کیونکہ پروٹوکول کے مطابق وزیر اعظم کے فوراً بعد حلف لینے والا حکومت میں دو نمبر کا سمجھا جاتا ہے۔ مودی حکومت کے دور اول میں یہ پوزیشن راج ناتھ ہی کو حاصل رہی ہے۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
وہ وزیر داخلہ رہے ہیں اور مودی کی غیر موجودگی میں کابینہ کمیٹیوں کی صدارت وہی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب جبکہ امت شاہ نے جو کہ بی جے پی کو شاندار جیت دلوانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور کابینہ میں بھی لیے جا رہے ہیں تو مودی سے ان کی قربت کے تناظر میں یہ سوال اٹھنا لازمی تھا۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
لیکن جب مودی کے فوراً بعد راج ناتھ سنگھ کو حلف دلایا گیا تو سوال کا جواب مل گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ نہیں امت شاہ نہیں راج ناتھ اب بھی حکومت میں دوسرے نمبر کے مالک ہیں۔ لیکن جب قلمدانوں کی تقسیم کے بعد آٹھ کابینہ کمیٹیاں بنائی گئیں اور ان تمام میں امت شاہ کو رکھا گیا اور راج ناتھ سنگھ کو صرف دو میں رکھا گیا اور یہاں تک کہ سب سے اہم سیاسی امور کی کمیٹی میں بھی ان کو نہیں لیا گیا تو یہ بحث اچانک بہت تیز ہو گئی کہ راج ناتھ نہیں امت شاہ ہی مودی حکومت میں دوسرے نمبر کے مالک ہیں۔ پروٹوکول کے اعتبار سے اگر چہ راج ناتھ سنگھ مودی کے بعد آتے ہیں لیکن عملاً راج ناتھ امت شاہ سے پچھڑ گئے ہیں۔ بازی شاہ کے ہاتھ میں آگئی ہے۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
بیشتر نیوز چینلوں پر بھی اس سلسلے میں بحث ہونے لگی۔ کابینہ کمیٹیوں کی تشکیل کے اعلان سے متعلق پریس ریلیز صبح کے وقت جاری کی گئی تھی۔ دن بھر اس پر گفتگو ہوتی رہی۔ ادھر راج ناتھ سنگھ بھی پورے دن سرگرم رہے۔ ان کو اپنی توہین کا احساس ہو رہا تھا۔ لہٰذا وہ آر ایس ایس کے دگج رہنماؤں کے دروازوں پر دستک دیتے رہے یا پھر بذریعہ فون ان سے محو گفتگو رہے۔ بالآخر ان کی کوششیں رنگ لائیں اور رات میں ان کو مزید چار کمیٹیوں میں شامل کر لیا گیا۔ جن میں سیاسی امور کی کمیٹی بھی شامل ہے۔ اس طرح وہ آٹھ تو نہیں لیکن چھ کمیٹیوں میں پہنچ گئے۔ اگر چہ یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اب بھی امت شاہ ان سے دو قدم آگے ہی ہیں۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
مودی حکومت میں یہ پہلی بار دیکھا گیا کہ کسی بہت بڑے فیصلے کو چوبیس گھنٹے کے اندر ہی بدل دیا گیا۔ ممکن ہے کہ مودی اور شاہ کو آر ایس ایس کی جانب سے یہ اشارہ ملا ہو کہ ابھی تو حکومت کا آغاز ہے ابھی سے کسی تنازعہ کا پیدا ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ لہٰذا راج ناتھ سنگھ کو مزید جگہ دی جائے اور سیاسی و صحافتی حلقوں میں اٹھنے والی ایک ایسی بحث کا دروازہ بند کر دیا جائے جو آگے چل کر حکومت کے لیے درد سر بننے والی ہو۔ ورنہ مودی ایک ایسے ایڈمنسٹریٹر سمجھے جاتے ہیں جو اپنے فیصلوں سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ خواہ وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
اگر چہ اس وقت مودی اور امت شاہ حکومت اور پارٹی میں سب سے طاقتور اشخاص ہیں لیکن آر ایس ایس میں راج ناتھ سنگھ کے بھی خیرخواہ ہیں اور یہی لوگ ان کو یہاں تک لائے ہیں۔ ورنہ بی جے پی میں ایسے کئی لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ راج ناتھ سنگھ کو اب تک جو کچھ بھی کامیابی ملی ہے وہ ان کی قابلیت کی وجہ سے نہیں بلکہ ارباب اختیار کے ساتھ بروقت تال میل سے ہی ملی ہے۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
کئی مواقع پر ایسا ہوا کہ راج ناتھ سنگھ صحیح وقت پر صحیح جگہ پہنچ گئے اور کامیابی کا ثمر ان کے ہاتھ لگا۔ خواہ وہ دو بار بی جے پی کی صدارت کا منصب ہو یا اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ کا منصب۔ یا پھر مودی کے دور اول میں وزارت داخلہ کی کرسی۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
جب 2014 کے الیکشن میں مودی کو بی جے پی کی جانب سے پہلے پرچار کمیٹی کا سربراہ اور پھر وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنا کر پیش کیا گیا تو ایل کے آڈوانی کے علاوہ جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی ان میں سشما سوراج اور راج ناتھ سنگھ بھی شامل تھے۔ آڈوانی نے سب سے بلند آواز اٹھائی تھی کیونکہ ان کو اپنی کرسی چھنتی نظر آگئی تھی اور سشما نے بھی قدرے تیز آواز میں کہا تھا کہ میری طرف سے مخالفانہ نوٹ لکھا جائے۔ لیکن راج ناتھ سنگھ نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور پھر خاموش ہو گئے۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
انھوں نے بظاہر مودی کا ساتھ دے دیا۔ حالانکہ انتخابی مہم کے دوران یہ بات اٹھتی رہی ہے کہ کیا واقعی مودی کو وزیر اعظم بنا دیا جائے گا۔ اس بات پر بہت کم لوگوں کو یقین تھا۔ بیشتر یہی کہتے رہے کہ جب ایسا موقع آئے گا تو راج ناتھ سنگھ رِنگ میں اپنا ہیٹ پھینک دیںگے۔ لیکن جب اس بارے میں ان سے سوال کیا جاتا تو وہ یہی کہتے کہ نہیں نہیں مودی ہی پردھان منتری بنیں گے۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
بی جے پی کی کامیابی کے بعد جب مودی حکومت بنی تو راج ناتھ کو مودی سے بظاہر وفاداری کا انعام ملا اور انھیں وزیر داحلہ بنائے جانے کے ساتھ ساتھ حکومت میں دوسری پوزیشن دے دی گئی۔ اس وقت تک امت شاہ کابینہ کے منظر نامے پر نہیں آئے تھے۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
لیکن اب جبکہ وہ یعنی مودی کا سب سے زیادہ اعتماد حاصل کرنے والے، قدم قدم پر مودی کا ساتھ دینے والے اور مودی کو وزارت عظمی تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے امت شاہ وزیر داخلہ بھی بنا دیئے گئے ہیں اور بظاہر اور عملاً بھی دوسرے نمبر کے مالک بھی بن گئے ہیں تو کیا آگے چل کر راج ناتھ سنگھ سے ان کا تصادم ہوگا اور اگر ہوگا تو کیا نتیجہ نکلے گا۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
اگر ایسا ہوا اور مودی اور امت شاہ کی تقدیر نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا تو بازی شاہ کے ہی ہاتھ رہے گی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ راج ناتھ سنگھ کو مودی کا اعتماد حاصل نہیں ہے اور اب جبکہ شاہ حکومت میں آگئے ہیں تو وہ بداعتمادی اور بھی بڑھتی جائے گی جو کہ ممکن ہے کہ کسی ناخوشگوار موڑ پر جا کر ختم ہو۔ ابھی تو کابینہ کمیٹیوں کے قیام سے پیدا ہونے والا تنازعہ بظاہر ابتدا ہی میں ختم کر دیا گیا ہے لیکن اس قسم کے تنازعات آگے نہیں اٹھیں گے، اس کی گارنٹی کوئی نہیں لے سکتا۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Jun 2019, 7:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز