بات سنہ 2000 کی ہے۔ بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) اپنا پہلا اسمبلی انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہی تھی اور جس کے بعد اگلے 24 سال تک اڈیشہ پر حکومت کرنے والی تھی۔ اسی دوران پارٹی صدر نوین پٹنایک نے اپنے سخت ناقد اور بی جے ڈی کی سیاسی معاملوں کی کمیٹی کے چیئرمین بجوئے مہاپاترا کو بات چیت کے لیے طلب کیا۔ اس ملاقات کے دوران نوین پٹنایک کی سادگی اور منکسرالمزاجی نے مہاپاترا کا دل بدل دیا۔ نوین کے والد بیجو پٹنایک کی کابینہ میں وزیر رہ چکے تھے اور پارٹی کے سینئر لیڈر مہاپاترا جب ملاقات ختم کر جانے کو کھڑے ہوئے تو نوین پٹنایک نے انہیں پٹکورا سیٹ پر ہونے والے انتخاب کے لیے نیک خواہشات پیش کیں۔ اس سیٹ کو روایتی طور سے مہاپاترا کا ہی علاقہ مانا جاتا تھا۔ نوین اور مہاپاترا کے درمیان ایک طرح کی صلح ہو چکی تھی اور وہ مطمئن ہو کر نامزدگی کے لیے روانہ ہو گئے۔ لیکن ابھی وہ اپنا پرچہ نامزدگی بھر بھی نہیں پائے تھے کہ ایک حیران کرنے والی خبر آئی کہ پارٹی نے اس سیٹ سے امیدوار بدل کر نوجوان صحافی اتانو سَوّساچی نایک کو ٹکٹ دے دیا ہے۔ مہاپاترا کے پاس اتنا وقت بھی نہیں بچا تھا کہ وہ آزاد امیدوار کے طور پر پرچہ بھر پاتے۔ نوین پٹنایک نے داؤ چل دیا تھا۔ اپنے سیاسی دشمنوں کو اس بے رحمی سے نمٹانا نوین پٹنایک کی سیاست کی شناخت رہی ہے۔ وہ معصوم صورت اور سادگی بھرے سلوک کے سبب تقریباً ڈھائی دہائی تک اقتدار میں بنے رہے۔ بی جے ڈی کے پرانے لیڈروں کو پٹنایک کی ماں گیان پٹنایک کہتی تھیں ’’پپو (نوین کا گھریلو نام) باہر سے جتنا سادگی بھرا اور منکسر المزاج ہے، اندر سے اتنا ہی سخت ہے۔‘‘ اس طرح وہ تنبیہ کرتی تھیں کہ کبھی نوین کو ہلکے میں مت لینا۔
Published: undefined
اب سوال ہے کہ کیا وہ ریٹائرمنٹ لے لیں گے یا پھر سے واپسی کے لیے جدوجہد کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو بی جے پی کے ہاتھوں روندے جانے کے بعد لوگوں کے دماغ میں بار بار اٹھ رہا ہے۔ بی جے پی تو پہلے بی جے ڈی کی معاون رہی ہے، لیکن اب وہ تنہا اپنے دم پر اڈیشہ میں پہلی بار حکومت بنانے جا رہی ہے۔ اس کا جواب شاید پٹنایک کے ماضی میں کہیں چھپا ہوا ہے۔ 1997 میں والد بیجو پٹنایک کے انتقال کے بعد جب نوین نے سیاست میں جھجکتے ہوئے قدم رکھا تھا تو لوگوں نے انھیں نوارد کہہ کر خارج کیا تھا۔ لیکن اقتدار اور سیاست کے داؤ پینچ سیکھنے میں انھیں وقت نہیں لگا۔ انھوں نے اپنے والد کی سیٹ اسکا سے انتخاب لڑا اور لوک سبھا پہنچ کر ان سب کے منھ بند کر دیے جنھیں خواب و خیال میں بھی دہلی کی ہائی سوسائٹی میں پرورش پائے اور اٹک اٹک کر اڑیہ بولنے والے نوین سے کوئی امید نہیں تھی۔
Published: undefined
نوین نے جنوبی اڈیشہ کی سیٹ پر اُمس اور گرمی کے درمیان دھواں دھار انتخابی تشہیر کی اور بڑے فرق سے جیت درج کی تھی۔ بلاشبہ اس جیت میں بیجو پٹنایک کی موت سے پیدا ہمدردی بھی شامل تھی، لیکن مقامی بولی میں بات نہ کرنے کے باوجود لوگوں نے ان کو پسند کیا کہ کوئی ایمانداری سے ان تک پہنچنے، اپنی بات کہنے اور سننے کی کوشش کر رہا ہے۔
***
Published: undefined
نوین کی یہی شبیہ مستقل رہی جس میں ایک طرف سیاسی مخالفین کے تئیں سخت رویہ اور دوسری طرف طویل وقت سے ان کے ساتھی رہے نوکرشاہ سے لیڈر بنے وی کے پانڈین پر بھروسہ... اور یہی شاید ان کی کمزوری ثابت ہوئی۔ وی کے پانڈین کو ہی اب بی جے ڈی کی انتخابی شکست کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
Published: undefined
پٹنایک نے ایسے فلاحی منصوبے چلائے جن کے مرکز میں خواتین کی خود مختاری اور غریبوں کی زندگی میں اصلاح رہا۔ بدعنوانی کے خلاف ان کے اٹوٹ رخ نے انھیں سیاست کا ’مسٹر کلین‘ بنا دیا۔ جب بھی کسی پر بدعنوانی کے الزام لگے تو نوین آئی اے ایس افسران سے لے کر اپنے وزراء تک کو جیل بھیجنے میں نہیں جھجکے، حالانکہ اس میں زبردست جوکھم بھی تھا۔ ایسا ہی معاملہ سابق وزیر پردیپ پانی گرہی کا تھا جنھیں بدعنوانی کے الزام میں جیل بھیجا گیا اور پارٹی سے ہٹا دیا گیا۔ پانی گرہی نے اس لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے ٹکٹ پر برہمپور سے جیت حاصل کی ہے۔
Published: undefined
لیکن پٹنایک اپنے فیصلوں پر پچھتانے والے شخص نہیں ہیں۔ قبل میں بھی انھوں نے بدعنوانی کی معمولی بھنک پر بھی اپنے وزرا کو برخواست کیا ہے۔ جن لوگوں کو نوین نے الگ کیا، ان میں نلنی کانت موہنتی اور کملا داس جیسے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ کملا داس تو بی جے ڈی کے بانی اراکین میں سے ہیں۔ افسران پر بھی اس پالیسی کی گاج گری اور ہاؤسنگ گھوٹالے میں ونود کمار جیسے سینئر آئی اے ایس افسران کی گرفتاری ہوئی۔
Published: undefined
بیجو پٹنایک کے مقابلے نوین پٹنایک کا سیاسی سفر کہیں کامیاب رہا۔ بیجو پٹنایک 30 سال کے وقفہ میں دو بار اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ رہے، وہیں نوین پٹنایک لگاتار تقریباً ڈھائی دہائی تک ریاست کی باگ ڈور سنبھالے رہے۔
Published: undefined
نوین پٹنایک کی یہی خوبیاں و خامیاں ہیں جن کا آنے والے دنوں میں امتحان ہوگا، جب وہ 24 سال میں پہلی بار اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ یکم جون کو ختم ہوئے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی نے اڈیشہ کی 21 میں سے 20 سیٹیں جیتی ہیں۔ اڈیشہ اسمبلی میں بی جے پی کو اکثریت کے نمبر 74 سے 5 سیٹیں ہی زیادہ ملی ہیں۔ ان سب کے درمیان نوین پٹنایک کا اصلی امتحان پارٹی کو اس مشکل وقت میں متحد رکھنے کا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined