لوک سبھا انتخابات کے چوتھے دور کی ووٹنگ کا عمل ختم ہو چکا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق 60 فیصد سے زائد لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔ اس اوسط سے دیکھیں تو اس دور میں بھی پہلے کے تین دور کی طرح ہی 60 سے 65 فیصد کے درمیان ہی ووٹنگ رہی۔ پھر بھی بی جے پی کے سب سے بڑے اسٹار اور وزیر اعظم نریندر مودی کو لگتا ہے کہ لوگ ووٹ نہیں ڈال رہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں پھر سے کہا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ کرنے نکلیں۔
Published: undefined
اس اپیل میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن اس اپیل کے ساتھ جو وجہ وزیر اعظم بتا رہے ہیں، وہ حیران کرتی ہے۔ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ ’’اپوزیشن غلط فہمی پھیلا رہا ہے کہ مودی تو جیت گیا، لیکن اس غلط فہمی میں مت آنا... ووٹ ڈالنے ضرور آنا...۔‘‘ ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وزیر اعظم نے برسرعام یہ بات کہی ہے کہ ’’مودی جیت رہا ہے، اس غلط فہمی میں مت آنا...۔‘‘ آخر وزیر اعظم کو بار بار ایسا کہنے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟
Published: undefined
انتخابی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ زیادہ ووٹنگ ہوتی ہے تو اسے عام طور پر اقتدار مخالف لہر مانا جاتا ہے، یعنی جو بھی پارٹی اقتدار میں ہے اسے ہٹانے کے لیے لوگ زیادہ سے زیادہ ووٹ کر رہے ہیں۔ 2014 میں ایسا ہی ہوا تھا، اور کئی دہائیوں میں پہلی بار ووٹنگ فیصد نے نیا ریکارڈ بنایا تھا اور 65 فیصد کے آس پاس ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ اس انتخاب میں بی جے پی نے 282 سیٹیں جیتی تھیں، جب کہ این ڈی اے کی معاون پارٹیوں کے ساتھ اس کا نمبر 330 سے اوپر تھا۔
Published: undefined
انتخابی کوریج پر نکلے تمام صحافی، نیوز چینلوں کے اسٹوڈیو میں بیٹھنے والے سیاسی تجزیہ نگار، اعداد و شمار کی بنیاد پر ہار جیت کا اندازہ لگانے والے سیفولوجسٹ (انتخابی تجزیہ نگار) اور عام طور پر لوگوں کا یہی ماننا رہا ہے کہ اقتدار مخالف جیسی کوئی لہر نہیں ہے۔ ایسے میں اگر ووٹنگ فیصد کم رہتی ہے تو اس سے برسراقتدار بی جے پی اور کم از کم وزیر اعظم کو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
Published: undefined
لیکن، ووٹنگ کم ہونے سے پی ایم اور بی جے پی دونوں پریشان ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آخر پی ایم ووٹروں کو پرجوش کرنے کے لیے یہ کیوں کر رہے ہیں کہ ’’اب اپوزیشن کہہ رہا ہے کہ مودی جیت رہا ہے اور ووٹ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی باتوں میں مت آنا۔ اگر مودی جیت رہا ہے تو بھرپور ووٹنگ کرنا اور زیادہ ووٹوں سے کامیاب بنانا۔‘‘
Published: undefined
اپنی فتح کے بارے میں کسی لیڈر یا کم از کم وزیر اعظم کو تو ایسا کہتے نہیں سنا گیا۔ پیر کے روز یہ بات جھارکھنڈ کے کوڈرما میں دہرانے سے پہلے مودی یہی بات وارانسی میں اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے دن بھی صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں۔
Published: undefined
آج (پیر، 29 اپریل) جن 72 سیٹوں پر الیکشن ہوا ہے، اس کے ساتھ ملک کی 375 سیٹوں پر ووٹنگ مکمل ہو گئی۔ یعنی ملک کی تقریباً 70 فیصد لوک سبھا حلقوں میں طے ہو چکا ہوگا کہ کون اقتدار میں آ رہا ہے یا آنا چاہیے۔ اب تو ایک تہائی سے بھی کم سیٹیں بچی ہیں جن پر انتخاب ہونا ہے۔ تو پھر یہی اپیل کیوں کہ ’’...یہ مت سمجھنا کہ مودی تو جیت گیا ہے...۔‘‘
Published: undefined
دراصل اس الیکشن میں حالات کچھ کچھ 2004 جیسے ہیں۔ جب انڈیا شائننگ کے نعرے کے ساتھ بی جے پی نے انتہائی جوش میں وقت سے پہلے عام انتخابات کرائے تھے۔ کارگل میں پاکستان کو دھول چٹانے کی کامیابی کا پرچم بھی ہاتھ میں تھا، اور بقول اڈوانی (واجپئی حکومت کے دور میں دی گئی ایک تقریر میں) فیل گڈ فیکٹر کام کر رہا تھا۔ لیکن بی جے پی الیکشن ہار گئی تھی۔
Published: undefined
تو کیا مانیں کہ اس بار بھی ایسا ہوگا؟ دراصل ایسا کہنا تھوڑی جلد بازی ہوگی۔ ویسے یہ سب کو معلوم ہے کہ انتخابی نتائج کا اندازہ لگانے کے لیے الیکشن سروے کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ ہی برسراقتدار پارٹی سرکاری ایجنسیوں سے بھی رپورٹ لیتی ہے، جسے عام طور پر زیادہ درست مانا جاتا ہے۔ تو کیا سرکاری ایجنسیاں کچھ اور ہی اشارہ دے رہی ہیں حکومت کو، جس کے سبب پی ایم کو یہ کہنا پڑ رہا ہے۔
Published: undefined
ان انتخابات میں ایک بات ایسی ہے جس پر سب متفق نظر آتے ہیں۔ وہ بات یہ ہے کہ اس بار ووٹر اپنے من کی بات سامنے رکھنے میں جھجک رہا ہے۔ کانگریس ڈاٹا اینالیٹکس محکمہ کے سربراہ پروین چکرورتی کے مطابق ’’اس بار کے انتخاب کی سب سے خاص بات ہے، خاموش ووٹر یا ایسا ووٹر جو اپنی پسند کی پارٹی کے بارے میں درست جانکاری نہیں دے رہا ہے۔‘‘ چکرورتی کہتے ہیں کہ ’’ہندی بیلٹ میں ووٹر اپنی پسند کو ظاہر کرتے ہوئے ڈر رہے ہیں، خاص طور سے تب جب ان کی پسند برسراقتدار پارٹی نہ ہو۔ لیکن بی جے پی حامی ووٹر کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
تو کیا 2019 کے الیکشن کو 2004 جیسا ماننا درست ہوگا؟ ان دونوں انتخابات میں ایک بنیادی فرق ہے۔ 2004 کے الیکشن میں واجپئی کی قیادت میں بی جے پی اپنے کام کی بنیاد پر الیکشن میں گئی تھی اور عام طور پر اسی بنیاد پر ووٹ مانگے بھی گئے تھے۔ لیکن اس بار کے الیکشن میں بی جے پی اور وزیر اعظم مودی اپنے کام کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگ رہے۔ یہاں تک کہ اس مرتبہ اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدوں کا بھی ذکر نہیں کر رہے۔ اس کے برعکس صرف مودی فیکٹر اور پلوامہ-بالاکوٹ ائیر اسٹرائک کے بعد راشٹرواد کے ایشو پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔
Published: undefined
پروین چکرورتی مانتے ہیں کہ اس کا اثر صرف بی جے پی کے کور ووٹ پر ہی نظر آ رہا ہے۔ عام لوگ اس سے متاثر نہیں ہیں۔ چکرورتی کے مطابق اس الیکشن میں ہر سیٹ کے الگ ایشوز ہیں جو قومی نہیں بلکہ بے حد مقامی ہیں۔
تو کیا مانا جائے کہ انہی اسباب کی بنا پر وزیر اعظم بار بار کہہ رہے ہیں کہ ’’مودی جیت گیا ہے، اسے سچ مت ماننا...!‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined