عام ہندوستانی بہت جلد غمگین بھی ہوجاتا ہے اور فوراً خوش بھی۔ کورونا کے آتے ہی ہم لوگوں نے صبح سے شام تک ایک دن کا جنتا کرفیو منایا اور تالی و تھالی بجا کر یہ سمجھ لیا کہ کورونا کو دفع کردیا گیا۔ رام داس اٹھاولے نے تو کورونا گو کا نعرہ لگا کر اپنی ویڈیو بناکر دنیا بھر میں اپنا اور ملک کا نام روشن کردیا۔ خیر ایک چھوڑ چار چار لاک ڈاؤن نے عوام کو کسی حد تک سنجیدہ تو کیا ہے مگر پھر لاک ڈاؤن کا خاتمہ ہوتے ہی لوگوں نے سمجھنا شروع کردیا ہے کہ اب تو کورونا کا انتم سنسکار ہوگیا ہے اور اس عفریت کو موت کی نیند سلایا جاچکا ہے۔ یہ بہت بڑی خوش فہمی ہے اس لیے کہ روز بروز کورونا کے متاثرین میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہی حالت دنیا بھر میں ہے۔ کورونا متاثرین کی تعداد ستر لاکھ کے قریب ہو گئی ہے اور مرنے والوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یوروپ میں برطانیہ کے علاوہ دیگر ممالک کے اندر مریضوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن باقی دنیا کا حال خراب ہے۔
Published: undefined
دنیا میں صرف 7 ممالک ایسے تھے جن میں مکمل لاک ڈاؤن لگایا گیا، ان میں سے ایک ہندوستان تھا۔ لیکن یہی ایک ایسا ملک ہے کہ جس میں لاک ڈاؤن کے خاتمہ پر بھی مریض بڑھ رہے ہیں، جبکہ بقیہ دیگر ممالک میں کمی دیکھی گئی ہے۔ فی الحال ہندوستان متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں مقام پر پہنچ گیا ہے اور7 جون تک کورونا متاثرین کی تعداد 2.45 لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے سب سے زیادہ 9360 نئے معاملوں کے ساتھ متاثرین کی جملہ تعداد 245461 ہوگئی ہے۔
Published: undefined
کورونا سے مقابلہ کی مہابھارت جیتنے کے لیے مودی جی نے 21 دن کا وقت مانگا تھا، بالکل اسی طرح جیسے ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنانے کے لیے 60 مہینے کی مدت مانگی تھی۔ 60 کے بجائے 72 مہینے گزر گئے اور ہندوستان لوہے کی چڑیا سے مٹی کی گڑیا بن گئی۔ ہندوستانی معیشت نے پوری طرح دم توڑ دیا اور اب اس کی ارتھی اٹھانا اور چتا جلانی باقی بچی ہے۔ بی جے پی کی نااہلی کے سبب یہ تو ہونا ہی تھا۔ لیکن کورونا نے اس کی سرعت میں اضافہ کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ مودی جی کو ایک بہانہ مل گیا۔ ایک سوال یہ ہے کہ قومی انتخاب میں زبردست کامیابی حاصل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی ایک سال کے اندر کورونا کی جنگ اتنی بری طرح کیوں ہار گئی؟ یہ سوال بی جے پی کے دشمنوں کے علاوہ دوستوں کو بھی تشویش میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
Published: undefined
اس سوال کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ مودی جی نے کورونا کو بھی کانگریس سمجھ لیا۔ حالانکہ ان دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ یعنی ایک بی جے پی کے لیے زمینی بلا اور دوسری عالم انسانیت کی خاطر آسمانی آفت ہے۔ پچھلے قومی انتخاب کی مہم میں راہل گاندھی نے رافیل کے حملوں سے اپنے مخالف نریندر مودی کے چھکے چھڑا دیئے تھے۔ سپریم کورٹ میں بین بین فیصلوں کے باوجود چہار جانب چوکیدار چور ہے کا شور بپا تھا۔ رام دیو بابا جیسا مودی بھکت بھی راہل کی تعریف کرنے لگا تھا اور ایک انٹرویو میں اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ انتخاب کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ راہل کی جیت اور مودی کی ہار بھی ہوسکتی ہے۔ آرایس ایس سے بی جے پی میں آنے والے رام مادھو نے انتخاب کے آخری مراحل میں یہ تک تسلیم کیا تھا شمالی ہندوستان میں بی جے پی کو نقصان اٹھنا پڑے گا اور اکثریت کے لیے حلیفوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہی رائے سبرامنیم سوامی کی بھی تھی۔ انہوں نے9 مئی 2019 کو یہاں تک کہہ دیا کہ بی جے پی کو اگر 230 نشستیں نہیں ملیں تووزیر اعظم مودی کا دوبارہ وزیر اعظم بننا مشکل ہوگا اور نتن گڈکری اچھے متبادل ہوں۔ لیکن ان ساری قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کر کے بی جے پی نے زبردست کامیابی درج کرائی۔
Published: undefined
اس کامیابی کے حصول کی خاطر بی جے پی نے جو حکمت عملی اختیار کی تھی اسی کے مطابق کورونا سے لڑنے کی کوشش کی۔ عوام کو توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹانے کے لیے پلوامہ کا بہانہ بناکر ائیر اسٹرائیک کی کہانی گھڑی گئی اور پاکستان کے خلاف عوامی جذبات بھڑکا کر انہیں احمق بنایا گیا۔ ہندوستان کے رائے دہندگان تو بیوقوف بن گئے لیکن کورونا نہیں بنا۔ کورونا کے خلاف بھی ائیر اسٹرائیک کی مانند علامتی تماشے کیے گئے۔ تالی، تھالی، دیا بتی اور پھول وغیرہ۔ کورونا کے معاملے میں اپنی ناکامی کی پردہ پوشی کے لیے تبلیغی جماعت کے نام پر عوام کو بہکایا گیا لیکن کورونا بڑھتا ہی چلا گیا۔
Published: undefined
معاشی پیکیج کا ڈرامہ کیا گیا وہ بھی کسی کام نہیں آیا۔ عوام کی حالت دن بہ دن بگڑتی چلی گئی کیونکہ سارا آپریشن وزیر اعظم کے دفتر سے چل رہا تھا۔ آئی ٹی سیل نت نئے شوشے چھیڑتا اور میڈیا اس کو سماج میں پھیلاتا، لیکن کورونا کا جراثیم ان افواہوں سے بے نیاز اپنا کام کرتا جا رہا تھا۔ اس وقت راہل گاندھی نے مشورہ دیا تھا کہ یہ جنگ پی ایم او سے نہیں جیتی جاسکتی۔ اس کے لیے وزرائے اعلیٰ اور ضلعی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ اس بات کو سمجھنے میں مودی جی کو70 دن لگ گئے، لیکن تب تک معاملہ ہاتھ سے نکل گیا اور ہندوستان پچاسویں مقام سے پانچویں مقام پر پہنچ گیا۔ مودی جی کی حماقت کی قیمت پوری قوم نے چکائی۔ کاش کے وہ اس بات کو شروع میں ہی سمجھ لیتے تو آج یہ حالت نہیں ہوتی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined