مسلم بہنوں کے ساتھ صنفی انصاف کے نام پر مودی حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں حال (جون 2019) میں پیش ایک بل، ملک بھر میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس بل میں تین طلاق کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ نریندر مودی کی پچھلی حکومت نے بھی پارلیمنٹ میں ایسا ہی ایک بل پیش کیا تھا۔ اس بل کو لوک سبھا نے پاس بھی کر دیا تھا، لیکن راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں تھی، اس لیے وہ بل قانون نہیں بن سکا۔
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
گزشتہ بل سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد لایا گیا تھا جس میں تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ اب حکومت کی دلیل یہ ہے کہ اس بل کو جلد سے جلد اس لیے پاس کروانا ضروری ہے کیونکہ گزشتہ بل کو پیش کیے جانے کے بعد سے ملک بھر میں تین طلاق کے تقریباً 200 معاملے سامنے آئے ہیں۔
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تین طلاق اور فوری طور پر تین طلاق میں فرق ہے۔ قرآن بیوی کو طلاق دینے کے لیے تین طلاق کے اصول کو صحیح مانتا ہے۔ قرآن کے مطابق پہلی بار طلاق کہنے کے بعد کچھ وقت دیا جانا چاہیے جس کے دوران دونوں فریق کے ثالث شوہر-بیوی میں سمجھوتہ کروانے کی کوشش کریں۔ اگر یہ کوشش ناکام ہو جاتی ہے تو دوسری بار طلاق لفظ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر کچھ وقت تک سمجھوتہ کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر سمجھوتہ نہیں ہو پاتا، تب تیسری اور آخری بار طلاق لفظ کہا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد شوہر-بیوی الگ ہو جاتے ہیں۔
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
قرآن کے مطابق ’’اگر تمھیں شوہر-بیوی کے درمیان جھگڑے کا خوف ہو تو ایک پنچ مرد کے لوگوں میں سے اور ایک پنچ عورت کے لوگوں میں سے مقرر کرو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان بہتری پیدا کر دے گا۔‘‘ (4:35) اور، ’’پھر جب وہ اپنی نیت عدت کو پہنچیں تو انھیں اچھی طرح سے روک لو یا اچھی طرح سے الگ کر دو۔ اور اپنے میں سے دو انصاف پسند شخص کو گواہ بنا لو اور اللہ کے لیے گواہی کو درست رکھو۔‘‘ (65:2)
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
جس بات کا تذکرہ کم ہی ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن عورتوں کو بھی اپنی مرضی سے ’خلاء‘ لفظ کہہ کر ازدواجی رشتہ ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ لاپروا مولوی حضرات، جن کے لیے اسلام میں کوئی جگہ ہی نہیں ہے، اس معاملے میں مسلم طبقہ کو گمراہ کرتے رہے ہیں۔ مولویوں نے ہی ایک بار میں تین طلاق لفظ کہنے کو اور فوری طلاق دینے کے طریقے کو منظوری دی ہے، اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
فوری اثر سے تین طلاق کا عمل سماج میں وسیع پیمانے پر رائج ہو گیا ہے اور اس کی وجہ سے مسلم خواتین کو بہت تکلیف اٹھانی پڑتی ہیں۔ قرآن میں درج تین طلاق کا طریقہ، جو کہ مسلم پرسنل لاء کا حصہ ہے، کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ’’چونکہ یہ رسم (تین طلاق)، مسلم پرسنل لاء کا حصہ ہے، اس لیے اسے آئین کی دفعہ 25 کا تحفظ حاصل ہے۔ مذہب کا تعلق عقیدہ سے ہے، دلیل سے نہیں۔ کوئی بھی عدالت ایسی کسی رسم، جو کسی مذہب کا غیر منقسم حصہ ہے، پر برابری کے اصول کو ترجیح نہیں دے سکتی۔‘‘
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
مبصرین یہ واضح نہیں کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے تین طلاق کو نہیں بلکہ فوری طور پر تین طلاق کو غیر قانونی ٹھہرایا ہے جو کہ پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت مسلم اکثریت والے کئی ممالک میں ممنوع ہے۔ جب عدالت نے پہلے ہی اس عمل پر پابندی لگا دی ہے، تو پھر اس بل کی کیا ضرورت ہے؟ اگر اب بھی فوری طلاق ہو رہی ہیں تو وہ قانون کی خلاف ورزی ہیں اور ان سے موجودہ قوانین کے تحت نمٹا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بل حکومت کی اتنی ترجیح کیوں ہے؟ بلکہ اس بل کی ضرورت ہی کیا ہے؟
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
دراصل مودی حکومت کی مسلم خواتین کے بارے میں فکر ’مگرمچھ‘ کے آنسو کے سوا کچھ نہیں۔ مسلم بہنوں کے اہم مسائل کیا ہیں؟ ان کے لیے فکر کی بات تو یہ ہے کہ گوشت کھانے، اس کی تجارت کرنے یا بیف رکھنے کے شک میں ان کے بھائیوں کا، شوہروں کا پیٹ پیٹ کر قتل کیا جا رہا ہے۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹرین میں ایک مسلم کو صرف اس لیے مار ڈالا گیا کیونکہ بھیڑ کو شک تھا کہ اس کے ٹفن میں بیف ہے۔ ان کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ ان کے بھائیوں کو کھمبے سے باندھ کر پیٹتے ہوئے ’جے شری رام‘ کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور رام کا جے کارا لگانے کے بعد بھی ان کی جان لے لی جاتی ہے۔ ان کے لیے پریشانی یہ بھی ہے کہ سرکردہ بی جے پی لیڈر گئو رکشا یا بیف کے نام پر قتل کرنے والوں کو اعزاز بخشنے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
اجتماعی سماجی سوچ میں اتنا زہر گھول دیا گیا ہے کہ ہندو راشٹروادی کنبے کے نام نہاد شر پسند عناصر اب ’جے شری رام‘ کے نعرہ کا استعمال مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ گائے کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے معیشت پر جو اثر ہوا ہے، اس کے سبب کئی مسلم بہنوں کے گھر چولہا نہیں جل پا رہا ہے۔ یہ سوچنا غلط ہے کہ مذہبی شناخت سے جڑے تشدد اور بے ضابطگی سے صرف مرد متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی فیملی کی خواتین بھی اس سے اثرانداز ہوتی ہیں۔ حکومت ان مسلم بہنوں کی تعداد تو بتا رہی ہے جو فوری تین طلاق سے متاثر ہیں، کیا وہ ان مسلم بہنوں کی تعداد بھی بتائے گی جو لو جہاد، گھر واپسی، رام مندر اور گئو رکشا کے نام پر کیے گئے تشدد سے متاثر ہیں؟
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
صنفی انصاف کے ایشو پر حکومت بہت سنجیدہ ہے، اچھی بات ہے۔ کیا حکومت کو یہ معلوم نہیں کہ مردم شماری 2011 کے مطابق ملک میں ایسی 24 لاکھ خواتین ہیں جنھیں ان کے شوہروں نے بغیر طلاق دیئے چھوڑا ہوا ہے۔ ان چھوڑی گئی خواتین کے لیے کوئی کمانے کا ذریعہ نہیں ہے۔ کیا ایسا کوئی قانون ہے جس کے تحت ان خواتین کے شوہروں کو ان کی اخلاقی ذمہ داری کا احساس کرایا جا سکے؟
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
سبریمالہ مندر میں 10 سے 50 سال کی عمر کی خواتین کے داخلے پر پابندی کو سپریم کورٹ کے ذریعہ رَد کر دیئے جانے کے بعد بھی وہاں روایت کے نام پر ہندو خواتین کو داخلہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ کیا یہ صنفی انصاف کا مذاق نہیں ہے؟
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
ایک جانب جہاں مسلم خواتین کی فکر میں بی جے پی پریشان ہے، وہیں وہ مسلم مردوں کو ظالم ظاہر کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی۔ مسلم خواتین کو برابری کے حق کو پوری عزت دیتے ہوئے ہم یہ درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ مرد اور خواتین مل کر خاندان بناتے ہیں۔ مسلم مردوں کو ظالم ظاہر کرنے سے ’مسلم بہنوں‘ کو بھی چوٹ پہنچتی ہے۔
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
این ڈی اے میں شامل کئی پارٹیاں جیسے جنتا دل یو، تین طلاق قانون کے حق میں نہیں ہے، لیکن بی جے پی کی زبردست اکثریت کے آگے ان کی کچھ چلنے والی نہیں ہے۔
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Jun 2019, 11:10 AM IST