سیاسی

حکومت سوشل میڈیا سے اتنی خوف زدہ کیوں ہے؟... سہیل انجم

مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے گزشتہ دنوں ٹوئٹر پر سخت قسم کے الزامات عاید کیے۔ انھوں نے کہا کہ ٹوئٹر نے جان بوجھ کر ہندوستانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا اس نے قانونی تحفظ کا اپنا حق کھو دیا ہے۔

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس 

ہم نے اس سے پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت سوشل میڈیا سے بہت زیادہ خائف ہے، اسی لیے وہ اس پر پابندی عاید کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسا ہرگز نہیں کرے گی لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ ایسی کوششیں بھی کر رہی ہے کہ جس طرح اس نے قومی میڈیا کو اپنا غلام بنا لیا ہے اسی طرح سوشل میڈیا کو بھی اپنے قدموں میں جھکا دے اور پھر قومی میڈیا کی طرح جسے گودی میڈیا کہا جانے لگا ہے سوشل میڈیا بھی حکومت کا بھونپو بن کر رہ جائے۔

Published: undefined

اس سلسلے میں اس نے فروری میں کچھ قوانین وضع کیے تھے اور تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو تین ماہ کے اندر ان قوانین پر عمل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ ان نئے قوانین کے مطابق تمام سوشل میڈیا پلیٹ فاموں کو ایک شکایت افسر مقرر کرنا ہوگا، جو کسی بھی پوسٹ کے بارے میں کوئی شکایت ملنے پر اسے حذف یا ڈلیٹ کرنے کا مجاز ہو۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں اور قانونی ادارے اگر کسی پوسٹ کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہیں اور یہ جاننا چاہیں کہ وہ مواد سب سے پہلے کس نے پوسٹ کیا تھا تو انھیں اس پہلے شخص کا نام بتانا ہوگا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر کسی شخص نے کوئی ایسا مواد پوسٹ کیا ہے جس سے ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور اس کی بنیاد پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف رپورٹ درج ہو تو جو پلیٹ فارم ان ضوابط کی پابندی کریں گے ان کو قانونی تحفظ حاصل ہوگا۔

Published: undefined

سوشل میڈیا کے امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کا یہ قدم صارفین کی پرائیویسی یا رازداری کے اصول کے خلاف ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا اس کی پابند نہیں ہے کہ وہ کسی مواد کو سب سے پہلے پوسٹ کرنے والے کی شناخت واضح کرے۔ اس سے صارف کے پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہوگی۔ ان ضوابط کے وضع کیے جانے کے بعد ٹوئٹر، فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام وغیرہ کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ ان قوانین پر عمل کریں ورنہ ان کو جو قانونی تحفظ حاصل ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ ابھی یہ تو نہیں معلوم ہو سکا ہے کہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارموں نے اس پر عمل کر لیا ہے لیکن ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان اس معاملے پر جنگ تیز ہو گئی ہے۔

Published: undefined

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے گزشتہ دنوں ٹوئٹر پر سخت قسم کے الزامات عاید کیے۔ انھوں نے کہا کہ ٹوئٹر نے جان بوجھ کر ہندوستانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا اس نے قانونی تحفظ کا اپنا حق کھو دیا ہے۔ ٹوئٹر کو نئے قوانین پر عمل کرنے کے لیے کئی مواقع دیئے گئے لیکن وہ ناکام رہا۔ ان کے مطابق حکومت سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہے۔ تاہم ٹوئٹر ایک اہلکار کا تقرر کرکے صارفین کی شکایات کو دور کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے بجائے اس نے ”مینی پولیٹیڈ میڈیا“ کی پالیسی پر عمل کیا۔ لیکن اس معاملے میں بھی وہ اپنی پسند کے مطابق اقدامات کرتا رہا۔ ٹوئٹر نے جس پر چاہا مینی پولیٹیڈ میڈیا کا ٹیگ لگا دیا اور جس پر نہیں چاہا نہیں لگایا۔

Published: undefined

یاد رہے کہ ٹوئٹر نے کچھ دنوں قبل بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا کے ایک ٹوئٹ کو جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا ”مینی پولیٹیڈ میڈیا“ کا ٹیگ لگا دیا تھا۔ اس ٹوئٹ میں پاترا نے الزام لگایا تھا کہ کانگریس نے ایک ٹول کٹ تیار کیا ہے جس میں کورونا وبا پر قابو پانے میں مودی حکومت پر ناکامی کا الزام لگایا گیا ہے اور اس ٹول کٹ کا مقصد مودی حکومت کو بدنام کرنا ہے۔ کانگریس نے اس الزام کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ اس نے کوئی ٹول کٹ تیار نہیں کیا اور سمبت پاترا کا ٹوئٹ فرضی ہے۔ لہٰذا ٹوئٹر نے ان کی پوسٹ کو ”مینی پولیٹیڈ میڈیا“ یعنی جوڑ توڑ والا اور ایک خاص رخ اختیار کرنے والا مواد قرار دیا تھا۔

Published: undefined

ٹوئٹر کی یہ ادا حکومت کو پسند نہیں آئی لہٰذا اس کے بعد پولیس کی جانب سے دہلی اور گڑ گاوں کے ٹوئٹر کے دفاتر پر چھاپہ مارا گیا اور نوٹس دیئے گئے۔ بی جے پی کے بعض دیگر کارکنوں کی پوسٹ کو بھی مینی پولیٹیڈ میڈیا قرار دیا گیا تھا۔ ابھی گزشتہ دنوں دہلی پولیس نے بنگلور کا دورہ کیا اور وہاں ٹوئٹر کے اہلکاروں سے پوچھ گچھ کی ہے۔ ابھی تک ٹوئٹر کا یہ قدم حکومت اور بی جے پی سے ہضم نہیں ہو پا رہا ہے۔

Published: undefined

دریں اثنا اترپردیش کے ضلع غازی آباد کے لونی علاقے میں پیش آنے والے ایک واقعہ کے بعد غازی آباد کی پولیس نے ٹوئٹر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور اس کو قانونی نوٹس جاری کرکے اس کے اہلکاروں کو لونی تھانے میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے کہ لونی علاقے میں ایک معمر مسلم شخص عبد الصمد سیفی کو چھ افراد نے اغوا کر لیا تھا اور ان کے بقول انھیں ایک جنگل میں لے جا کر ان کی پٹائی کی گئی اور ان سے جبراً جے شری رام بولنے کو کہا گیا۔ اس سلسلے میں دو ویڈیو وائرل ہوئے۔ پہلی میں جس میں عبد الصمد سیفی کی ڈنڈے سے پٹائی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے آڈیو نہیں ہے۔ جبکہ دوسری ویڈیو ایک فیس بک لائیو ہے جس میں وہ اپنے اوپر گزرے ہوئے واقعات بتا رہے ہیں۔

Published: undefined

یہ ویڈیوز مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر گردش کرتی رہیں اور متعدد نیوز چینلوں اور نیوز ایجنسیوں نے اس خبر کو نشر کیا۔ لیکن غازی آباد کی پولیس نے ٹوئٹر، نیوز ویب سائٹ دی وائر، صحافی محمد زبیر اور رعنا ایوب اور کانگریس ترجمان ڈاکٹر شمع محمد، کانگریسی سیاست داں سلمان نظامی اور مشکور عثمانی اور صحافی اور قلمکار صبا نقوی کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ اس کے بعد بالی ووڈ اداکارہ سورا بھاسکر، ٹوئٹر کے آصف خان، دی وائر سے وابستہ صحافی عارفہ خانم شیروانی اور ٹوئٹر انڈیا ہیڈ منیش مہیشوری کے خلاف دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی۔ پولیس نے ٹوئٹر اور مذکورہ افراد پر الزام عاید کیا ہے کہ انھوں نے معمر مسلم شخص کی ویڈیو نشر کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔

Published: undefined

دی وائر نے اپنے اور دیگر صحافیوں کے خلاف پولیس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ اس کے مطابق حکومت کے نقطہ نظر کے علاوہ دوسرے موقف کی رپورٹنگ کو مجرمانہ فعل قرار دینے کی یہ ایک کوشش ہے۔ ایڈیٹر گلڈ آف انڈیا، پریس کلب آف انڈیا، ممبئی پریس کلب اور صحافیوں کی دیگر تنظیموں اور میڈیا اداروں نے صحافیوں کے خلاف کیس درج کرنے کی مذمت کی ہے اور ان کارروائیوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

Published: undefined

بہرحال اس سے قبل ٹوئٹر نے نائب صدر ایم وینکیا نائڈو، آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کے مزید چار اعلیٰ عہدے داروں کے اکاونٹ سے ”بلیو ٹک“ ہٹا دیا تھا۔ یہ اکاونٹس کئی گھنٹے تک بلیو ٹک سے محروم رہے۔ بلیو ٹک کسی بھی اکاونٹ کے تصدیق شدہ ہونے کی نشانی ہے۔ ٹوئٹر کے اس قدم پر بی جے پی رہنماوں نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ خود نائب صدر کے دفتر نے اس معاملے کو اٹھایا تھا۔ اس معاملے پر ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اکاونٹ ایک سال تک غیر سرگرم یا اِن ایکٹیو رہتا ہے تو ٹوئٹر کے قانون کے مطابق اس کا بلیو ٹک کا درجہ ختم کر دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

خیال رہے کہ ٹوئٹر اور حکومت کے درمیان یہ ٹکراؤ کسان تحریک کے سلسلے میں شروع ہوا تھا جب حکومت کی جانب سے ایسی پندرہ سو ٹوئٹس کو ڈلیٹ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی جن میں زرعی قوانین کے سلسلے میں حکومت کی نکتہ چینی کی گئی تھی۔ حکومت کے اصرار پر ٹوئٹر نے کچھ ٹوئٹس ڈلیٹ کر دیئے تھے لیکن پھر انھیں بحال کر دیا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے پھر انھیں ڈلیٹ کرنے کو کہا اور پھر ٹوئٹر نے تقریباً گیارہ سو پوسٹ ڈلیٹ کر دیئے۔

Published: undefined

اس ٹکراؤ کے درمیان گزشتہ دنوں ٹوئٹر کے اہلکاروں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت سے متعلق پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے طلب کیا گیا جہاں بی جے پی کے تین اراکین راجیہ وردھن راٹھور، سید ظفر اسلام اور نشی کانت دوبے نے ان سے سخت سوالات کیے اور ٹوئٹر پر حکومت کے بجائے اس کی مخالف غیر سرکاری تنظیموں کے مشوروں پر انحصار کرنے کا الزام لگایا۔ بہرحال ٹوئٹر نے ایک بیان میں کہا کہ وہ صارفین کی پرائیویسی اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے اصولوں کے تحت حکومت ہند کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔

Published: undefined

کانگریس نے ٹوئٹر کے خلاف کارروائی کی مذمت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مودی حکومت 140 کروڑ شہریوں کی آواز کو دبا دینا چاہتی ہے۔ کانگریس ترجمان رندیپ سرجے و الا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹوئٹر اپنی جانب سے کچھ نہیں لکھتا۔ یہ تو ملک کے عوام ہیں جو حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ آج کوئی بھی صحافی حکومت کے خلاف نہیں لکھ سکتا۔ اگر کوئی لکھتا ہے تو اس کی ملازمت چلی جاتی ہے۔ ان حالات میں صرف یو ٹیوب، فیس بک، انسٹا گرام اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بچے ہوئے ہیں لیکن حکومت ان کو بھی ختم کر دینا چاہتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined