لکھیم پور کھیری میں کسانوں کے ایک پر امن احتجاج کے دوران گاڑیوں سے روند کر کسانوں کی ہلاکت کے واقعہ نے مرکز اور اترپردیش کی موجودہ حکومتوں کی رعونت اور تکبر کی ایک اور داستان رقم کر دی ہے۔ رعونت کی یہ داستان صرف کسانوں کو کچل کر مارنے تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس کے بعد مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کے اس بیان نے کہ یہ لوگ کسان نہیں دہشت گرد تھے اور پھر قانون کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے وزیر کے بیٹے کی قانون کے سامنے پیش نہ ہونے کی کارروائی نے اس رعونت کو مزید گہرا کر دیا۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومت کے اشارے پر وزیر کے بیٹے آشیش مشرا کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنا بھی حکومت کے غرور و تکبر کی داستان بیان کرتا ہے۔
Published: undefined
لیکن ہندوستان میں جہاں ایک طرف جمہوریت کو ختم کرکے آمریت قائم کرنے کی کوشش کامیاب ہوتی جا رہی ہے وہیں ملک کی عدالتیں کسی حد تک جمہوریت کے تحفظ اور آئین و قانون کی پاسداری کا فرض ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لہٰذا جب ریاستی حکومت کی جانب سے قتل کا مقدمہ درج ہونے کے باوجود آشیش مشرا کو گرفتار نہیں کیا گیا اور اسے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ گمراہ کن بیانات دینے اور اس کا اعتراف کرنے کے باوجود کہ جس گاڑی سے کسان کچلے گئے وہ ان کی ہی تھی، اجے مشرا کو کابینہ سے برطرف نہیں کیا گیا تو پھر عدالت عظمیٰ نے از خود کارروائی کی اور ریاستی حکومت سے سخت سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ کیا کر رہی ہے اور ملزموں کی گرفتاری کیوں نہیں ہو رہی ہے۔
Published: undefined
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے اس معاملے کی سماعت کے لیے ایک تین رکنی بینچ بنا دی اور حکومت کو ہدایت دی کہ وہ کارروائی کی اسٹیٹس رپورٹ پیش کرے۔ چیف جسٹس کی جانب سے ریاستی حکومت کی سرزنش کے بعد جا کر بڑی مشکل سے آشیش مشرا کو جانچ کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا اور اسے گرفتار کیا گیا۔ اس معاملے میں پولیس اور انتظامیہ کا رویہ بہت واضح طور پر اجے مشرا اور آشیش مشرا کی پشت پناہی والا رہا ہے جس کی ہر چہار جانب سے مذمت کی گئی اور اب بھی کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
جب کسانوں کو کچل کر انتہائی بے دردی کے ساتھ ہلاک کر دیا گیا اور حکومت و پولیس انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں اور بالخصوص کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اور جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے لکھیم پور جانے اور متاثرہ خاندانوں سے ملنے کا اعلان کیا۔ بلکہ ہوا یوں کہ پرینکا گاندھی یو پی ہی میں تھیں اور وہ رات ہی میں لکھیم پور کے لیے روانہ ہو گئیں۔ لیکن پولیس نے ان کو جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے کئی گاڑیاں بدلیں اور پولیس سے بچتے ہوئے کافی آگے تک چلی گئیں۔ اس دوران پولیس کی جانب سے ان کے ساتھ دھکا مکی بھی کی گئی اور جبریہ طور پر روکنے کی کوشش کی گئی۔ انھوں نے پولیس سے پوچھا کہ آخر ان کو کس دفعہ کے تحت اور کس جرم میں روکا جا رہا ہے۔
Published: undefined
پولیس نے ان کے سخت سوالوں کے جواب میں کہا کہ لکھیم پور کھیری میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ حالانکہ پرینکا گاندھی کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاع کے مطابق وہاں اس وقت دفعہ 144 نافذ نہیں تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر دفعہ 144 نافذ بھی ہو تب بھی انھیں جانے کی اجازت ملنی چاہیے۔ کیونکہ صرف چار افراد کے ساتھ اور ایک ہی گاڑی میں جا رہی ہیں۔ ان کے ساتھ سیکورٹی بھی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی انھیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور کئی گھنٹے کی مشقت کے بعد انھیں پہلے حراست میں لیا گیا اور پھر گرفتار کر لیا گیا۔ انھیں سیتا پور میں پی اے سی کے ایک گیسٹ ہاؤس میں بند کر دیا گیا۔
Published: undefined
حالانکہ ان کے علاوہ کسی اور اپوزیشن لیڈر کو گرفتار نہیں کیا گیا صرف حراست میں لیا گیا۔ لیکن پولیس کی بددیانتی دیکھیے کہ پرینکا گاندھی کو نہ تو کوئی نوٹس دکھایا گیا نہ کسی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی قانونی کارروائی کی گئی۔ وہ کہیں وہاں سے نکل نہ جائیں اس لیے وہاں پر پولیس کا زبردست پہرہ بٹھا دیا گیا۔ اس دوران پرینکا گاندھی کی ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں انھیں کمرے میں جھاڑو لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔ دراصل انھوں نے پولیس کی اس کارروائی کے خلاف بطور احتجاج جھاڑو لگائی۔ یہ گاندھی جی کے ستیہ گرہ کی مانند ایک ستیہ گرہ تھا تاکہ حکومت و پولیس انتظامیہ کی جانبداری کو واضح کیا جا سکے۔
Published: undefined
موجودہ مرکزی حکومت اور اس کے ساتھ ساتھ یو پی کی ریاستی حکومت کی بھی یہ کوشش ہے کہ کانگریس پارٹی اپوزیشن پارٹی ہونے کا اپنا کردار ادا نہ کر سکے۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ کانگریس ختم ہو رہی ہے اور دوسری طرف اسے کسی عوامی سرگرمی میں حصہ لینے سے روکنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ پرینکا گاندھی کو جس طرح روکا گیا اور انھیں گیسٹ ہاؤس میں بند کر دیا گیا اور دو روز تک نہیں نکلنے دیا گیا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت ان کی مقبولیت سے بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئی ہے۔ حالانکہ پرینکا گاندھی نے یہی کہا تھا کہ وہ تو متاثرہ خاندان سے ملنے اور ان کے آنسو پونچھنے جا رہی ہیں۔ لیکن حکومت یہ بھی نہیں چاہتی کہ کانگریس کا کوئی لیڈر ایسے لوگوں سے ملے جن کے ساتھ ظلم ہوا ہو زیادتی کی گئی ہو اور جن کے انسانی حقوق پامال کیے گئے ہوں۔
Published: undefined
دو روز تک پرینکا گاندھی کو بند رکھنا بعض قانونی ماہرین کے نزدیک حبس بیجا کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر واقعی یہ کارروائی حبس بیجا کے زمرے میں آتی ہے تو پھر حکومت اور پولیس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع ہونا چاہیے۔ بہرحال یہ ایک قانونی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں وہی بہتر انداز میں بتا سکتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں پرینکا گاندھی کی مقبولیت سے حکومت ڈر گئی ہے۔ جس طرح سیتا پور کے گیسٹ ہاؤس کے باہر کانگریس کے کارکنوں کی بھیڑ جمع ہو گئی وہ اپنے آپ میں ایک انوکھا واقعہ تھا۔
Published: undefined
شاید حکومت کو ایسا لگنے لگا کہ پرینکا گاندھی اندرا گاندھی کی مانند ایک بڑی سیاسی قوت بنتی جا رہی ہیں اور اگر انھیں نہیں روکا گیا تو وہ حکومت کے لیے بہت بڑی مصیبت بن سکتی ہیں۔ اس لیے ان کو لکھیم پور جانے سے روکنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا گیا۔ اسی دوران جب راہل گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ لکھیم پور جائیں گے تو ان کے جانے پر بھی پابندی عاید کر دی گئی۔ لیکن وہ چھتیس گڑھ اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ لکھنؤ جانے کے لیے بذریعہ طیارہ روانہ ہو گئے۔ جب وہ لکھنؤ ایئرپورٹ پر پہنچے تو وہاں انھیں روک لیا گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ انھیں پولیس کی گاڑی میں جانا ہوگا اس پر راہل گاندھی نے احتجاج کیا اور کہا کہ وہ ہمیشہ اپنی گاڑی سے چلتے ہیں یہاں سے بھی وہ اپنی گاڑی سے جائیں گے۔ ان کو شک تھا کہ پولیس اپنی گاڑی میں بٹھا کر انھیں کہیں اور لے جا سکتی ہے۔
Published: undefined
تقریباً نصف گھنٹے تک پولیس نے ان کو روکے رکھا۔ راہل گاندھی وہیں ایئرپورٹ پر بیٹھ گئے۔ بالآخر پولیس نے ان کی بات مان لی اور انھیں اپنی گاڑی میں جانے کی اجازت دے دی۔ راہل گاندھی وہاں سے سیدھے سیتا پور گئے جہاں تقریباً دو گھنٹے تک وہ اس گیسٹ ہاؤس میں رہے جس میں ان کی بہن پرینکا گاندھی کو رکھا گیا تھا۔ جس وقت وہاں راہل گاندھی پہنچے ہیں تو عوام کی بھیڑ میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔ لوگ پرینکا اور راہل کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ یہاں تک کہ جب وہ دونوں وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے تو انھیں نکلنے کا موقع نہیں ملا۔ گیٹ پر عوام اور کانگریسی کارکنوں کا زبردست اژدہام تھا۔ بالآخر دونوں پھر اندر چلے گئے اور بعد میں پچھلے دروازے سے نکل کر لکھیم پور کے لیے روانہ ہوئے۔
Published: undefined
گیسٹ ہاؤس کے آس پاس عوام کا اژدہام دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے پولیس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں پچھلے دروازے سے نکالا گیا۔ دونوں رہنما ہلاک ہونے والے کسانوں کے اہل خانہ سے ملے اور ان کو دلاسہ دلایا اور کہا کہ اگر موجودہ حکومت اور اس کی پولیس ان کے ساتھ نہیں ہے تو کوئی بات نہیں ہم لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔ اس طرح اس پورے معاملے کا ایک باب ختم ہوا۔
Published: undefined
اس دوران حکومت اور پولیس کی جانب سے پرینکا گاندھی کو روکنے کی جس بڑے پیمانے پر کوشش کی گئی اور جس طرح انھیں گرفتار کرکے ایک گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حکومت پرینکا اور راہل گاندھی کی بڑھتی مقبولیت سے خائف ہو گئی ہے۔ لہٰذا وہ انھیں کسی بھی ایسی جگہ جانے اور متاثرین سے ملنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے جس سے ان کی مقبولیت میں اور اضافہ ہو اور ان کے حامیوں کی تعداد اور بڑھے۔ لیکن حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس قسم کی کارروائیاں عوامی جذبات کے طوفان پر بند نہیں باندھ سکتیں اور جب طوفان آنا ہوتا ہے تو آکر رہتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز