سیاسی

بی جے پی راہل گاندھی سے اتنی خوفزدہ کیوں ہے؟... سہیل انجم

بی جے پی راہل گاندھی کے ”نفرت کے بازار میں محبت کی دکان“ کھولنے کے نعرے سے بھی ڈری ہوئی ہے۔ وہ اس کا توڑ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ناکام ہے۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی</p></div>

راہل گاندھی

 

@INCIndia

اب یہ بات بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ بزعم خود دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ہندوستان کی حکمراں پارٹی بی جے پی کانگریس کے سابق صدر، سابق رکن پارلیمنٹ اور سینئر رہنما راہل گاندھی سے بری طرح خائف ہے۔ وہ موقع بموقع اپنے اس خوف کا اظہار اپنے اقدامات، بیانات اور فیصلوں سے کرتی رہتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال امریکہ کا راہل کا دورہ اور کیرالہ کے وائناڈ پارلیمانی حلقے میں ضمنی انتخاب کا اعلان ہے۔ راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں امریکہ کے تین شہروں سان فرانسسکو، واشنگٹن اور نیویارک کا دورہ کیا اور متعدد مقامات پر ہندوستانی تارکین وطن سے خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے خطابات میں مودی حکومت کے عوام اور جمہوریت مخالف پالیسیوں پر شدید انداز میں تنقید کی اور یہاں کے ماحول بالخصوص اقلیتوں کی صورت حال، جمہوری قدروں کی پامالی اور جمہوری اداروں کو اپنا مطیع بنانے کی حکومت کی کوششوں پر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے نریند رمودی پر طنز بھی کیے۔

Published: undefined

لیکن جوں ہی ان کے بیانات میڈیا میں آئے حکومت کی جانب سے ردعمل اور بی جے پی رہنماؤں کی اچھل کود کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومت کی پالیسیوں اور وزیر اعظم پر ان کی تنقید کو ہندوستان کو بدنام کرنا قرار دیا جانے لگا اور بار بار یہ بتانے کی کوشش کی جانے لگی کہ راہل گاندھی جب بھی باہر جاتے ہیں تو ہندوستان کو بدنام کرتے ہیں۔ ان پر کئی قسم کے الزامات لگائے جانے لگے اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جانے لگی کہ وہ ملک دشمن ہیں۔ بلکہ اس سے قبل تو بی جے پی لیڈروں نے ان کو ملک دشمن قرار دے دیا تھا۔ جس خاندان نے ملک پر عشروں تک حکومت کی ہو اور جس کے دو وزرائے اعظم دہشت گردی کے شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھے ہوں اس خاندان کے ایک فرد پر ملک دشمنی کا الزام لگانا کیا بی جے پی لیڈروں کے ذہنی دیوالیہ پن یا ان کی بوکھلاہٹ کا ثبوت نہیں ہے۔

Published: undefined

دراصل وزیر اعظم مودی نے 2014 کے بعد بیرون ملک مقیم ہندوستانی تارکین وطن سے خطاب کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جو اب بھی جاری ہے۔ جب بھی ان کے کسی ملک کے دورے کا پلان بنتا ہے تو بی جے پی، آر ایس ایس اور سنگھی تنظیموں کی جانب سے اس ملک میں ان کے جلسے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لانے کی مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ اس کے لیے تمام تر وسائل استعمال کیے جاتے ہیں اور اس طرح یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم مودی اپنے ملک میں جتنے مقبول ہیں غیر ممالک میں بھی اتنے ہی مقبول ہیں۔ لیکن اب راہل گاندھی نے انہی تارکین وطن کو اپنے سامعین بنانے کی کوشش شروع کر دی تو بی جے پی پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی۔ وہ ڈرنے لگی کہ جو طبقہ نریندر مودی کا ہمنوا تھا اس پر کہیں راہل گاندھی قبضہ نہ کر لیں۔

Published: undefined

حالانکہ کانگریس کے پاس نہ اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی بیرون ملک اس کی اتنی شاخیں یا تنظیمیں ہیں جتنی کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے پاس ہیں۔ تاہم اوورسیز کانگریس کی جانب سے راہل گاندھی کا مذکورہ پروگرام منظم کیا گیا اور کچھ لوگوں کو لانے کی کوشش کی گئی جن میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو کانگریس حامی ہیں۔ اس کے باوجود وزیر اعظم مودی اور بی جے پی ڈرے ہوئے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ راہل گاندھی نے وزیر اعظم مودی اور بی جے پی حکومت کی کمزور ی پکڑ لی ہے۔ راہل گاندھی کا یہ دورہ در اصل غیر ممالک میں بسے ہندوستانی تارکین وطن کے درمیان نریندر مودی کی بڑھتی مقبولیت کا مقابلہ کرنے یا جواب دینے کی کانگریس کی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کے بعد راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

Published: undefined

نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (او آر ایف) میں وزیٹنگ فیلو اور کانگریس پارٹی پر ایک کتاب کے مصنف رشید قدوائی کہتے ہیں کہ اندرون ملک بھی راہل کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جس کا اشارہ سروے ایجنسیوں کی رپورٹوں میں ملتا ہے اور غیر ممالک میں بھی ہوا ہے۔ اس دورے نے بھی ان کے امیج کو بہتر بنایا ہے۔ واضح رہے کہ سروے ایجنسی سی ووٹر نے موڈ آف دی نیشن نامی ایک سروے کیا ہے جس میں نریند رمودی کی مقبولیت 47 فیصد اور راہل گاندھی کی 27 فیصد دکھائی گئی ہے۔ جب کہ بھارت جوڑو یاترا سے قبل راہل کی مقبولیت دس فیصد سے بھی کم رہی ہے اور مودی کی مقبولیت موجودہ شرح سے زیادہ رہی ہے۔

Published: undefined

راقم الحروف سے گفتگو میں رشید قدوائی نے بتایا کہ راہل گاندھی اس بات سے واقف ہیں کہ حکومت کے وزرا ہندوستان کی اندرونی صورت حال کے بارے میں مغربی میڈیا کی رپورٹوں اور بالخصوص امریکی و برطانوی اخباروں کے اداریوں کو خواہ مسترد ہی کیوں نہ کریں لیکن ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مغربی میڈیا میں وزیر اعظم کی بہتر امیج پیش کی جائے۔ اب راہل گاندھی نے بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کی کمزور نس پکڑ لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غیر ملکی سرزمین پر نریندر مودی اور بی جے پی پر شدید تنقید شروع کر دی۔

Published: undefined

قارئین کو معلوم ہوگا کہ جب راہل گاندھی نے مارچ میں برطانیہ کے دورے میں حکومت پر جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کا الزام عاید کیا تھا تو اندرون ملک ایک تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور حکومت اور بی جے پی کی جانب سے یہ الزام عاید کیا جانے لگا تھا کہ وہ غیر ملکی سرزمین پر ہندوستان کو بدنام کر رہے ہیں۔ اسی طرح جب انھوں نے امریکہ میں یہی بات کہی تو ایک بار پھر ان پر یہی الزام لگایا گیا۔ حکومت کے وزرا، بی جے پی کے رہنما اور حکومت نواز میڈیا اداروں نے راہل کے بیان کے خلاف ایک طومار باندھ دیا۔ بی جے پی راہل گاندھی کے ”نفرت کے بازار میں محبت کی دکان“ کھولنے کے نعرے سے بھی ڈری ہوئی ہے۔ وہ اس کا توڑ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے مگر ناکام ہے۔ جب اس نعرے کا کوئی جواب نہیں بن پڑا تو بی جے پی صدر جے پی نڈا نے الزام عاید کر دیا کہ راہل گاندھی نے ”نفرت کا شاپنگ مال“ کھول دیا ہے۔

Published: undefined

مبصرین کہتے ہیں کہ راہل گاندھی کے بیان کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور ان پر ملک کو بدنام کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت پر کی جانے والی ان کی تنقید کو عالمی میڈیا میں کوریج ملی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انڈین ڈائسپورا یعنی ہندوستانی تارکین وطن کی رائے بٹ گئی جو وزیر اعظم کے لیے پریشان کن بات ہے۔ مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ راہل گاندھی اپوزیشن رہنما ہیں اور اپوزیشن حکومت کی مخالفت کرتا ہی ہے۔ اگر راہل گاندھی کر رہے ہیں تو کیا غلط ہے۔ جب راہل حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو بی جے پی ان کی مذمت کرتی ہے لیکن جب وزیر اعظم غیر ملکی سرزمین پر سابقہ کانگریس حکومتوں پر تنقید کرتے ہیں تو وہ چپ رہتی ہے۔ کانگریس کے نوجوان رہنما کنھیا کمار نے بھی ایک ٹی وی شو میں حصہ لیتے ہوئے راہل گاندھی کے بیان کا دفاع کیا اور کہا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں اطلاعات کے حوالے سے ملکی سرحدیں ختم ہو گئی ہیں۔ جو بات اندورن ملک کہی جا سکتی ہے وہی بیرون ملک بھی کہی جا سکتی ہے۔

Published: undefined

دراصل بی جے پی اور خود وزیر اعظم نریندر مودی کانگریس اور خاص طور پر نہرو گاندھی فیملی سے نفرت کرتے ہیں اور اسے بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع گنوانا نہیں چاہتے۔ اب یہی دیکھیے کہ کناڈا میں خالصتان حامیوں نے چار جون کو ایک پریڈ نکالی جس میں انھوں نے ایک جھانکی کے ذریعے اندرا گاندھی کے بہیمانہ قتل کا منظر پیش کیا اور اس کا جشن منایا۔ حالانکہ کناڈا حکومت کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ ادھر دوسری طرف حکومت ہند کو جس طاقتور انداز میں اس کی مذمت کرنی اور کناڈا سے سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا اس انداز سے نہیں کیا گیا۔

Published: undefined

جس وقت اندرا گاندھی کا قتل ہوا وہ ملک کی وزیر اعظم تھیں۔ پروٹوکول کے مطابق ان کے قتل کا جشن منانا ہندوستان کی توہین ہے۔ لیکن اس میں بی جے پی کو ہندوستان کی توہین نظر نہیں آئی۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور نائب وزیر خارجہ میناکشی لیکھی نے ہلکا پھلکا بیان دے دیا۔ کناڈا کے سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے وضاحت طلب نہیں کی گئی اور احتجاج نہیں کیا گیا۔ اگر کسی بھاجپائی لیڈر کے قتل کے سلسلے میں ایسا واقعہ پیش آیا ہوتا تو کیا اس وقت بھی یہ حکومت اسی ڈھلمل رویے کا مظاہرہ کرتی۔ بی جے پی حکومت کا یہ قدم دراصل کانگریس اور راہل گاندھی سے خوف کا ایک حصہ ہے۔ بی جے پی اس بات سے ڈری ہوئی ہے کہ جس طرح راہل گاندھی حکومت پر متواتر حملے کر رہے ہیں اور اس کی ناکامیوں کی پول کھول رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ 2024 میں لینے کے دینے پڑ جائیں۔ 

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined