سیاسی

ہار سے خوفزدہ مودی: بادل کے پیر چھو کر ساتھیوں کو خوش کرنے کی کوشش

وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آج تک کسی کے پیر نہیں چھوئے۔ لیکن جمعہ کو وارانسی میں اکالی دل کے بزرگ لیڈر پرکاش سنگھ بادل کے پیر چھو کر سب کو حیران کر دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

وارانسی میں پرچہ نامزدگی داخل کرتے وقت جب وزیر اعظم نریندر مودی نے بزرگ اکالی دل لیڈر پرکاش سنگھ بادل کے پیر چھوئے تو انھوں نے ان لوگوں کو ضرور حیران کر دیا جو مانتے تھے کہ پورے ساڑھے چار سال تک مودی نے این ڈی اے کی معاون پارٹیوں کے ساتھ میٹنگ کرنے یا ان کے ساتھ کم از کم مشترکہ پروگرام بنانے کی کوئی زحمت تک نہیں اٹھائی۔ شیو سینا، رام ولاس پاسوان، اکالی دل اور باقی ساتھی پارٹیاں مودی کے تقریباً پورے دور میں خود کو نظر انداز کیے جانے کو لے کر بی جے پی ہی نہیں براہ راست پی ایم مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کے رویے سے کافی ناراض تھے۔ شیو سینا نے تو اپنے جارحانہ انداز میں کئی بار مودی-شاہ پر سیدھا حملہ تک کیا۔

Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM IST

پنجاب میں واحد ساتھی پارٹی اکالی دل کے ساتھ بھی بی جے پی کے پانچ سال سے رشتے تلخ ہی رہے۔ 2017 کے شروع میں پنجاب اسمبلی انتخاب ہارنے کے بعد تو مودی اور امت شاہ نے اکالی دل کو کھلے عام نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔ پنجاب بی جے پی کی رپورٹ بھی یہی تھی کہ بادل فیملی پر بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے ہی اس کے ہاتھوں سے اقتدار گیا۔ انتخاب میں شکست کے بعد اکالی دل بالکل الگ تھلگ پڑ گیا تھا۔

Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM IST

پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ بادل کے پیر چھونے کے اس عمل سے مودی نے پنجاب میں بی جے پی-اکالی دل کیڈر میں عرصے سے جاری تلخیوں کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سنٹر فار کمپریٹو پالیٹیکل تھیوری محکمہ کے پروفیسر کمل متر چنائے حیران ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مودی نے جمعہ کو وارانسی میں جس طرح اکالی دل لیڈر پرکاش سنگھ بادل کے پیر چھوئے اس کے ذریعہ مودی نے اس بات کا صاف اشارہ دے دیا کہ عام انتخاب کے بعد مرکز میں حکومت بنانے کی بی جے پی کی حسرتیں پوری نہیں ہونے والی۔

Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM IST

میرٹھ یونیورسٹی میں پالیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر کے سی شرما محترم چنائے کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’23 مئی 2019 کو انتخابی نتائج آنے کے بعد مودی کے سامنے مرکز میں دوبارہ اقتدار بنانے کا ایک ہی متبادل بچا ہے کہ وہ بی جے پی کے تنہا اکثریت حاصل نہ کر پانے کی صورت میں این ڈی اےمیں شامل پارٹیوں کی جانب سے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کریں۔‘‘

Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM IST

یہ بات ظاہر ہے کہ شیوسینا سے ناراضگی تو مئی 2014 سے ہی شروع ہو گئی تھی جب اپنے سب سے اہم ساتھی شیو سینا کے اننت گیتے کو ہی کابینہ وزیر کا عہدہ دیا گیا۔ وہ بھی ایک غیر اہم محکمہ جس کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ شیو سینا کا لگاتار دباؤ یہ ہوتا تھا کہ اسے کم از کم ایک اور وزارت دی جائے جس سے ممبئی اور مہاراشٹر کے لوگوں کو سہولتیں دی جا سکیں۔

Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM IST

شیو سینا این ڈی اے میں شامل تنہا پارٹی ہے جس نے رافیل گھوٹالے میں ’چوکیدار چور ہے‘ کے کانگریس صدر راہل گاندھی کے نعرے کی حمایت کی ہے۔ 25 دسمبر 2018 کو مہاراشٹر کے سولا پور میں شیو سینا کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اُدھو ٹھاکرے نے کہا کہ سولاپور اور کئی دیگر اضلاع میں کھیتی کے کیڑے کس طرح کسانوں کی فصل برباد کر رہے ہیں۔ اُدھو اس وقت اتنے پر ہی نہیں رکے، انھوں نے مرکزی و مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت، جس میں خود ان کی اپنی پارٹی بھی شامل ہے، پر خوب حملے کیے اور صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’چوکیدار چور ہے۔‘‘ شیو سینا نے پلوامہ حملے پر بھی مودی حکومت کی سرزنش کی تھی۔ پارٹی کے ترجمان ’سامنا‘ نے مودی کی خاموشی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایکشن کے لیے حکومت کو انتخابات کا انتظار ہے۔

Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM IST

لیکن کیا واقعی بی جے پی-شیو سینا میں نئے ماحول کا ’ہنی مون‘ کسی طویل مدتی پالیسی کا حصہ ہے؟ اس سوال پر مہاراشٹر کے اہم اخبار ’سکال‘ کے دہلی بیورو چیف اننت بگایتکر کہتے ہیں کہ ’’دراصل اپنا سیاسی وجود بچائے رکھنے کے لیے نہ تو بی جے پی کے پاس کوئی متبادل ہے اور نہ ہی شیو سینا کے پاس۔‘‘ بقول ان کے ’’یہ دوستی صرف لوک سبھا انتخاب تک ہے تاکہ سیٹوں پر سمجھوتے کے تحت ایک دوسرے کا ووٹ تقسیم ہونے سے روکیں اور وہ دونوں شراکت داروں کو منتقل بھی ہو سکیں۔‘‘

Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM IST

مہاراشٹر کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ اتحاد بالکل باہری دکھاوے کے لیے ہے۔ زمینی سطح پر بی جے پی-شیو سینا کے موجودہ اراکین پارلیمنٹ و ٹکٹ حاصل کنندگان کا دباؤ دونوں ہی پارٹیوں پر تھا کہ کانگریس-این سی پی کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں ہی پارٹیوں کو مل کر انتخاب لڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 27 Apr 2019, 1:10 PM IST